منگل کے روز اسرائیلی پارلیمان نے ایک ایسے متنازع بل کی منظوری دی ہے جس کے بعد عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل کو شدید ردعمل کا سامنما کرنا پڑا۔
تفصیلات کے مطابق مذکورہ بل 120 اراکین پر مشتمل پارلیمان میں یہ بل محض ایک ووٹ کے فرق سے منظور ہوا، جہاں 24 اراکین نے حق میں جبکہ 25 نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ جس کے بعد یہ بل قانونی شکل اختیار کرنے کے پہلے مراحل سے گزر چکا ہے۔
اس اقدام میں مرکزی کردار ادا کرنے والے نوم پارٹی کے بانی اور اپوزیشن رہنما آوی معوز ہیں۔
حکومتی اتحادی اوتسما یہودیت اور ریلیجس زایونزم نے اس بل کی حمایت کی۔ تاہم، حیران کُن امر یہ ہے کہ نیتن یاہو کی جماعت نے اس بل کی مخالفت کی ہے، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ مخالفت محض علامتی و عالمی برادری کو دکھانے کے لیے تھی۔
یہ اقدام عین ایسے وقت میں ہوا جب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس غزہ جنگ بندی معاہدے کو مستحکم کرنے کے لیے اسرائیل کے دورے پر موجود ہیں۔ ناقدین کا مؤقف ہے کہ کنیسٹ کا مذکورہ اقدام جنگ بندی معاہدے کو سبوتاژ کرنا ہے جو عرب دنیا و عالمی برادری کے ساتھ کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی
قانونی ماہرین اس بل کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اقوام متحدہ کے قواعد، جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کے براہِ راست منافی ہے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 242 سمیت متعدد قراردادوں کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ 1967 کی جنگ میں مقبوضہ کیے گئے علاقوں سے فوجی انخلا کرے۔ اس سے قبل جولائی 2024 میں ہی آئی سی جے نے فیصلے صادر کرتے ہوئے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیا تھا کہ اس قسم کا اقدام عالمی جرم کے مترادف ہے۔
اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے اداروں کا کہنا ہے کہ زیرِ نطر بل کے ذریعے اسرائیل خود کو ایک نسلی امتیاز پر مبنی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، نتیجتاً فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کو مستقل طور پر چھین لیا جائے گا۔
عالمی ردِ عمل
بل کی ابتدائی منطوری پر شدید عالمی ردعمل دیکھنے میہں آیا۔ فلسطینی اتھارٹی، حماس اور پی ایل او کے ساتھ ساتھ قطر، سعودی عرب، کویت اور اردن نے بھی اسرائیلی اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
قطر اور سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ خطے میں جنگ بندی معاہدے کو نقصان پہنچانے اور کشیدگی کو مزید بڑھانے کا سبب بنے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے بھی اس اقدام کو غزہ جنگ بندی معاہدے کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ امریکا کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرے گا جو دو ریاستی حل کے امکانات کو متاثر کرے۔
عالمی ماہرین کے نزدیک اسرائیل کا یہ اقدام دراصل ستمبر 2025 میں فلسطین کو کئی مغربی ممالک کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے بعد کی ایک سیاسی رد عمل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر زیرِ نطر بل باقی تین مراحل میں بھی منظور ہو گیا تو یہ دو ریاستی حل کے عملی خاتمے اور خطے میں تنازعے کے ایک نئے اور خطرناک باب کا نقطۂ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔
دیکھیں: اسرائیل کی امن معاہدے کی ایک مرتبہ پھر خلاف ورزی، 98 فلسطینی شہید