گزشتہ چند برسوں میں طالبان حکام متعدد بار پاکستان اور عالمی برادری کو اسی قسم کی یقین دہانیاں کرا چکے ہیں، مگر ٹی ٹی پی اور دیگر متعلقہ گروہوں کی سرگرمیاں، حملے اور موجودگی نے ان وعدوں کو غیرموثر بنا دیا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں اس تازہ فتویٰ کی اہمیت کو پرکھا جائے گا۔

December 11, 2025

پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور پاکستان اپنے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گا۔

December 11, 2025

نامعلوم افراد کی فائرنگ سے گورنمنٹ ہائی اسکول شاہ پسند کلے کی دو اساتذہ موقع پر جاں بحق ہو گئیں

December 11, 2025

امریکی کانگریس مین ٹِم برشیٹ نے افغان طالبان کو مالی معاونت روکنے کے لیے پیش کیے گئے بل کے سینیٹ میں رکنے پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں، جن میں سینیٹ اسٹافر ٹام ویسٹ کے مبینہ تعلقات اور کچھ ری پبلکن سینیٹرز کے غیر قانونی مالی فوائد شامل ہیں

December 11, 2025

فتویٰ کے مطابق علمائے کرام نے کہا کہ چونکہ شرعی امیر نے کسی بھی افغان شہری کو بیرونی ملک میں مسلح سرگرمی یا جہاد کی اجازت نہیں دی، اس لیے ایسی کوئی کارروائی ناجائز، حرام اور بغاوت کے زمرے میں آئے گی۔

December 11, 2025

اقوامِ متحدہ کے مطابق افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی آئندہ برسوں میں امداد کی محتاج ہوگی

December 11, 2025

کابل میں علما کا پانچ نکاتی فتویٰ؛ مثبت پیش رفت مگر عملی اقدامات بھی ضروری ہیں

گزشتہ چند برسوں میں طالبان حکام متعدد بار پاکستان اور عالمی برادری کو اسی قسم کی یقین دہانیاں کرا چکے ہیں، مگر ٹی ٹی پی اور دیگر متعلقہ گروہوں کی سرگرمیاں، حملے اور موجودگی نے ان وعدوں کو غیرموثر بنا دیا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں اس تازہ فتویٰ کی اہمیت کو پرکھا جائے گا۔
کابل میں علما کا پانچ نکاتی فتویٰ؛ مثبت پیش رفت مگر عملی اقدامات بھی ضروری ہیں

بالآخر، خطے میں استحکام کا دارومدار بیانات پر نہیں بلکہ مستقل عمل، شفافیت اور ذمہ دارانہ طرزِ حکمرانی پر ہے۔ اعتماد، کاغذی الفاظ سے نہیں بلکہ ان پر قائم رہنے سے بنتا ہے۔

December 11, 2025

کابل میں ایک ہزار سے زائد افغان علما و مشائخ کے اجتماع میں جاری ہونے والا پانچ نکاتی فتویٰ بظاہر امارتِ اسلامی کی مذہبی ساکھ کو مضبوط بنانے، داخلی نظم کو منظم کرنے اور ہمسایہ ممالک کے لیے ایک سیاسی و نظریاتی پیغام دینے کی کوشش ہے۔ اس اعلامیے میں طالبان حکومت کی اطاعت کو ’’دینی فریضہ‘‘ قرار دیا گیا ہے، بیرونِ ملک ’’جہاد‘‘ کو امیر کی اجازت کے بغیر ’’حرام‘‘ کہا گیا ہے، اور افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے پر واضح پابندی عائد کی گئی ہے۔ اصولی طور پر یہ نکات خطے کے لیے مثبت اشارے سمجھے جا سکتے ہیں۔

تاہم اس پوری پیش رفت کا ایک اہم پہلو ہے: اعتماد کا بحران محض بیانات سے ختم نہیں ہوتا، اس کے لیے مستقل عملی نفاذ درکار ہوتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں طالبان حکام متعدد بار پاکستان اور عالمی برادری کو اسی قسم کی یقین دہانیاں کرا چکے ہیں، مگر ٹی ٹی پی اور دیگر متعلقہ گروہوں کی سرگرمیاں، حملے اور موجودگی نے ان وعدوں کو غیرموثر بنا دیا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں اس تازہ فتویٰ کی اہمیت کو پرکھا جائے گا۔

فتویٰ میں افغان شہریوں کو دوسرے ممالک میں مسلح کارروائیوں میں حصہ لینے سے روکنا اگرچہ قابلِ توجہ قدم ہے، مگر اس کی افادیت تبھی ثابت ہوگی جب امارتِ اسلامی سرحدی نگرانی، نقل و حرکت کی روک تھام، اور عسکری گروہوں کی تنظیم سازی کے خلاف ٹھوس، قابلِ تصدیق اور مستقل اقدامات کرے۔ اعتماد، صرف الفاظ سے نہیں بلکہ قابلِ مشاہدہ پالیسیوں سے پیدا ہوتا ہے۔

اعلامیے میں یہ نکتہ بھی موجود ہے کہ بیرونی جارحیت کی صورت میں ’’مقدس جہاد‘‘ فرض ہو جاتا ہے۔ داخلی طور پر اس بیان کا ایک مخصوص مقصد ہو سکتا ہے، مگر علاقائی سطح پر اس کے اثرات اور غلط تعبیرات کے امکانات بھی موجود ہیں۔ افغانستان کے حساس سیاسی ماحول میں اس طرح کی اصطلاحات کو ہمیشہ اس خدشے کے ساتھ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں انہیں کسی نئے تصادم یا پراکسی کے لیے جواز نہ بنا لیا جائے۔

یہ فتویٰ رپورٹ کرتے ہوئے پاکستانی میڈیا پر بھی گہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ علما کے بیانات کو درست تناظر میں بیان کرنا ضروری ہے، مگر ساتھ ہی گزشتہ تجربات کو نظرانداز کرنا صحافتی بددیانتی ہوگی۔

طالبان اس سے پہلے بھی بارہا یقین دہانیاں دے چکے ہیں مگر عمل درآمد کا تسلسل نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ چنانچہ میڈیا کا کردار یہی ہونا چاہیے کہ اعلان کا خیرمقدم کرے، مگر اس کے ساتھ وعدے اور عمل کے فرق کو واضح رکھے، جذباتی تاثر سازی سے اجتناب کرے اور اسے علاقائی سیکورٹی کے تناظر میں رپورٹ کرے۔

افغانستان اور خطے کے لیے یہ فتویٰ تب ہی حقیقی معنی اختیار کرے گا جب اس کے بعد ٹھوس اقدامات، شفافیت اور مستقل مزاجی سامنے آئے گی۔ پاکستان کے لیے بھی فیصلہ کن سوال یہی ہے کہ آیا امارتِ اسلامی اپنی سرزمین کو تخریب کار عناصر سے پاک رکھنے کے وعدے پر واقعی قائم رہتی ہے یا نہیں۔ خطے کا امن اور اعتماد اسی پر منحصر ہے۔

بالآخر، خطے میں استحکام کا دارومدار بیانات پر نہیں بلکہ مستقل عمل، شفافیت اور ذمہ دارانہ طرزِ حکمرانی پر ہے۔ اعتماد، کاغذی الفاظ سے نہیں بلکہ ان پر قائم رہنے سے بنتا ہے۔

متعلقہ مضامین

پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور پاکستان اپنے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گا۔

December 11, 2025

نامعلوم افراد کی فائرنگ سے گورنمنٹ ہائی اسکول شاہ پسند کلے کی دو اساتذہ موقع پر جاں بحق ہو گئیں

December 11, 2025

امریکی کانگریس مین ٹِم برشیٹ نے افغان طالبان کو مالی معاونت روکنے کے لیے پیش کیے گئے بل کے سینیٹ میں رکنے پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں، جن میں سینیٹ اسٹافر ٹام ویسٹ کے مبینہ تعلقات اور کچھ ری پبلکن سینیٹرز کے غیر قانونی مالی فوائد شامل ہیں

December 11, 2025

فتویٰ کے مطابق علمائے کرام نے کہا کہ چونکہ شرعی امیر نے کسی بھی افغان شہری کو بیرونی ملک میں مسلح سرگرمی یا جہاد کی اجازت نہیں دی، اس لیے ایسی کوئی کارروائی ناجائز، حرام اور بغاوت کے زمرے میں آئے گی۔

December 11, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *