کابل میں ایک ہزار سے زائد افغان علما و مشائخ کے اجتماع میں جاری ہونے والا پانچ نکاتی فتویٰ بظاہر امارتِ اسلامی کی مذہبی ساکھ کو مضبوط بنانے، داخلی نظم کو منظم کرنے اور ہمسایہ ممالک کے لیے ایک سیاسی و نظریاتی پیغام دینے کی کوشش ہے۔ اس اعلامیے میں طالبان حکومت کی اطاعت کو ’’دینی فریضہ‘‘ قرار دیا گیا ہے، بیرونِ ملک ’’جہاد‘‘ کو امیر کی اجازت کے بغیر ’’حرام‘‘ کہا گیا ہے، اور افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے پر واضح پابندی عائد کی گئی ہے۔ اصولی طور پر یہ نکات خطے کے لیے مثبت اشارے سمجھے جا سکتے ہیں۔
تاہم اس پوری پیش رفت کا ایک اہم پہلو ہے: اعتماد کا بحران محض بیانات سے ختم نہیں ہوتا، اس کے لیے مستقل عملی نفاذ درکار ہوتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں طالبان حکام متعدد بار پاکستان اور عالمی برادری کو اسی قسم کی یقین دہانیاں کرا چکے ہیں، مگر ٹی ٹی پی اور دیگر متعلقہ گروہوں کی سرگرمیاں، حملے اور موجودگی نے ان وعدوں کو غیرموثر بنا دیا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں اس تازہ فتویٰ کی اہمیت کو پرکھا جائے گا۔
فتویٰ میں افغان شہریوں کو دوسرے ممالک میں مسلح کارروائیوں میں حصہ لینے سے روکنا اگرچہ قابلِ توجہ قدم ہے، مگر اس کی افادیت تبھی ثابت ہوگی جب امارتِ اسلامی سرحدی نگرانی، نقل و حرکت کی روک تھام، اور عسکری گروہوں کی تنظیم سازی کے خلاف ٹھوس، قابلِ تصدیق اور مستقل اقدامات کرے۔ اعتماد، صرف الفاظ سے نہیں بلکہ قابلِ مشاہدہ پالیسیوں سے پیدا ہوتا ہے۔
اعلامیے میں یہ نکتہ بھی موجود ہے کہ بیرونی جارحیت کی صورت میں ’’مقدس جہاد‘‘ فرض ہو جاتا ہے۔ داخلی طور پر اس بیان کا ایک مخصوص مقصد ہو سکتا ہے، مگر علاقائی سطح پر اس کے اثرات اور غلط تعبیرات کے امکانات بھی موجود ہیں۔ افغانستان کے حساس سیاسی ماحول میں اس طرح کی اصطلاحات کو ہمیشہ اس خدشے کے ساتھ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں انہیں کسی نئے تصادم یا پراکسی کے لیے جواز نہ بنا لیا جائے۔
یہ فتویٰ رپورٹ کرتے ہوئے پاکستانی میڈیا پر بھی گہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ علما کے بیانات کو درست تناظر میں بیان کرنا ضروری ہے، مگر ساتھ ہی گزشتہ تجربات کو نظرانداز کرنا صحافتی بددیانتی ہوگی۔
طالبان اس سے پہلے بھی بارہا یقین دہانیاں دے چکے ہیں مگر عمل درآمد کا تسلسل نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ چنانچہ میڈیا کا کردار یہی ہونا چاہیے کہ اعلان کا خیرمقدم کرے، مگر اس کے ساتھ وعدے اور عمل کے فرق کو واضح رکھے، جذباتی تاثر سازی سے اجتناب کرے اور اسے علاقائی سیکورٹی کے تناظر میں رپورٹ کرے۔
افغانستان اور خطے کے لیے یہ فتویٰ تب ہی حقیقی معنی اختیار کرے گا جب اس کے بعد ٹھوس اقدامات، شفافیت اور مستقل مزاجی سامنے آئے گی۔ پاکستان کے لیے بھی فیصلہ کن سوال یہی ہے کہ آیا امارتِ اسلامی اپنی سرزمین کو تخریب کار عناصر سے پاک رکھنے کے وعدے پر واقعی قائم رہتی ہے یا نہیں۔ خطے کا امن اور اعتماد اسی پر منحصر ہے۔
بالآخر، خطے میں استحکام کا دارومدار بیانات پر نہیں بلکہ مستقل عمل، شفافیت اور ذمہ دارانہ طرزِ حکمرانی پر ہے۔ اعتماد، کاغذی الفاظ سے نہیں بلکہ ان پر قائم رہنے سے بنتا ہے۔