استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان جاری مذاکرات اپنے تیسرے دور میں کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے، اور اب بات چیت مکمل طور پر ڈیڈ لاک کا شکار ہو چکی ہے۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے مطابق مذاکرات کا اگلا دور فی الحال طے نہیں کیا گیا اور پاکستان کا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کی علامت ہے کہ ثالث ممالک ترکیہ اور قطر کو بھی اب افغانستان سے کوئی امید باقی نہیں رہی۔
خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا کہ ترکیہ اور قطر نے انتہائی خلوص کے ساتھ ثالثی کا کردار ادا کیا اور دونوں ممالک نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی۔ تاہم افغان وفد نے مذاکرات کے دوران پاکستان کے مؤقف سے اصولی طور پر اتفاق کیا، مگر اس اتفاق کو تحریری شکل دینے سے انکار کر دیا۔ افغان وفد کا مؤقف تھا کہ ان کی بات زبانی طور پر تسلیم کی جائے، جسے پاکستان نے بین الاقوامی سفارتی اصولوں کے منافی قرار دیا۔ وزیرِ دفاع نے واضح کیا کہ بین الاقوامی مذاکرات میں حتمی فیصلے ہمیشہ تحریری بنیاد پر طے پاتے ہیں، نہ کہ زبانی وعدوں پر۔
وزیرِ دفاع نے بتایا کہ ثالث ممالک نے بھی اب مزید امید ظاہر نہیں کی، اگر انہیں کسی پیش رفت کی امید ہوتی تو وہ پاکستان سے رکنے کی درخواست کرتے، مگر انہوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے۔ خواجہ آصف کے مطابق، “ہمارا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ثالثوں کو بھی یقین ہو چکا ہے کہ کابل کسی حقیقی پیش رفت کے لیے تیار نہیں۔”
خواجہ آصف نے خبردار کیا کہ اگر افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہوا تو اس کا مؤثر جواب دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک افغان جانب سے فائر بندی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، پاکستان سیزفائر برقرار رکھے گا۔ وزیرِ دفاع نے دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ایک ہی مطالبہ ہے — افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خاتمہ اور پاکستان پر حملوں کی روک تھام۔
واضح رہے کہ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور بھی کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گیا، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر تناؤ میں مزید اضافہ متوقع ہے۔