خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی زیرِ صدارت صوبائی کابینہ نے 14 نومبر 2025 کو پشاور میں ہونے والے اپنے پہلے اجلاس میں ایکشن (اِن ایڈ آف سول پاور) ریگولیشن 2011 کو ختم کرنے کی منظوری دے دی۔ یہ ریگولیشن سابقہ قبائلی اضلاع میں انسدادِ دہشت گردی اقدامات کے لیے نافذ کیا گیا تھا، جس میں سیکیورٹی فورسز کو وسیع اختیارات اور قانونی استثنیٰ حاصل تھا۔
یہ قانون برسوں سے انسانی حقوق کی تنظیموں اور قبائلی عوام کی جانب سے تنقید کی زد میں رہا، کیونکہ اس کے تحت مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت کارروائیوں اور غیر شفاف حراستی نظام کو تقویت ملی۔ پشاور ہائی کورٹ نے بھی اسے آئین سے متصادم قرار دیا تھا، جس کے خلاف صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
صوبائی کابینہ کے فیصلے کے مطابق، حکومت اب سپریم کورٹ میں زیرِ التواء اپیل واپس لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ اقدام صوبائی اسمبلی کی حالیہ متفقہ قرارداد کے عین مطابق ہے، جس میں 2011 کے ریگولیشن کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس فیصلے کو عملدرآمد کے لیے حتمی منظوری صوبائی اسمبلی سے درکار ہوگی۔
معاونِ خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان کے مطابق کابینہ نے اس ریگولیشن سے متعلق سپریم کورٹ میں زیر التوا اپیل واپس لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کا خاتمہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی متفقہ قرارداد کے مطابق ہے، اور اس کا باضابطہ نفاذ اسمبلی کی منظوری کے بعد عمل میں آئے گا۔
سیاسی اور انسانی حقوق کے ماہرین اس پیشرفت کو قبائلی علاقوں کے لیے ایک اہم موڑ قرار دے رہے ہیں، جو طویل عرصے سے سخت سکیورٹی قوانین کے بوجھ تلے زندگی گزار رہے تھے۔ حکومت کے مطابق، ریگولیشن کے خاتمے کے بعد بھی دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے دیگر قانونی و انتظامی اقدامات برقرار رہیں گے۔
تاہم سکیورٹی ماہرین کے مطابق ایک ایسی صورتحال میں یہ قانون ختم کرنا جب افغانستان کی جانب سے بھی کشیدگی اور دراندازی جاری ہے اور صوبے کا اپنا امن بھی خراب ہے، سکیورٹی پر سنگین اثرات مرتب کر سکتا ہے۔