نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان میں شروع کی جانے والی جنگ بیس سال جاری رہی۔ امریکہ نے اپنی تمام تر قوت افغانستان میں جھونک دی۔ تمام تراکیب آزمائی گئیں۔ مگر افغان بہادر جنگجوؤں نے امریکہ کی ایک نہ چلنے دی۔ بالآخر 15 اگست 2021 کو طالبان سرخرو ٹھہرے اور 20 سال کی جدوجہد کے بعد امریکہ ناکام لوٹ گیا۔
جنگ میں فتح کا سہرا صرف افغان طالبان کے سر تو نہ تھا۔ کئی دیگر عوامل و ممالک تھے جنہوں نے افغانستان کو اعلانیہ و غیراعلانیہ مدد فراہم کی۔ بہر حال یہ ایک طویل موضوع ہے اور دنیا اس پر لکھتی رہی ہے اور لکھتی رہے گی کہ کیسے سپر پاور امریکہ 20 سال افغانستان کے پتھروں میں سر پٹختا رہا اور بالآخر ناکام لوٹا۔

آج تین برس ہوئے جب آخری امریکی نے افغانستان چھوڑا تھا۔ 31 اگست 2021 کو جنگ کے خاتمے پر یہاں سے انخلا کرنے والے امریکا کے آخری فوجی میجر جنرل کرس ڈوناہو کی تصویر اس وقت سوشل میڈیا پر بے حد وائرل ہوئی اور اس کا موازنہ 1989 میں سوویت یونین کی واپسی سے کیا گیا۔
ہاتھ میں رائفل تھامے کابل چھوڑنے والے آخری امریکی فوجی، میجر جنرل کرس ڈوناہو تھے، جو 82ویں ایئربورن ڈویژن کے میجر جنرل تھے۔ وہ افغانستان سے روانہ ہونے والی آخری امریکی پرواز میں سوار ہوئے۔
سی-17 کی سائیڈ ونڈو سے نائٹ وژن ڈیوائس سے لی گئی سبز اور سیاہ رنگ کی تصویر میں امریکی جنرل کو کابل کے حامد کرزئی ایئرپورٹ پر موجود طیارے کی جانب بڑھتا ہوا دیکھا گیا اور امریکی محکمہ دفاع نے اس پر ٹویٹ کرتے ہوئے اپنی شکست اور ناکامی کا ‘غیر اعلانیہ’ اعلان کیا۔
The last American soldier to leave Afghanistan: Maj. Gen. Chris Donahue, commanding general of the @82ndABNDiv, @18airbornecorps boards an @usairforce C-17 on August 30th, 2021, ending the U.S. mission in Kabul. pic.twitter.com/j5fPx4iv6a
— Department of Defense 🇺🇸 (@DeptofDefense) August 30, 2021
تصویر پینٹاگون نے افغانستان میں 20 برس تک جاری رہنے والی جنگ کے خاتمے اور مکمل فوجی انخلا کے چند گھنٹے بعد جاری کی۔
عالمی دفاعی ماہرین نے کابل چھوڑنے والے ‘آخری امریکی فوجی’ کی تصویر کو ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور ان کا موازنہ 1989 میں افغانستان سے حتمی انخلا کے موقع پر لی جانے والی سوویت جنرل کی تصویر سے کیا۔

اتحادیوں کی مدد سے ملٹری آپریشن مکمل کرنے کے بعد امریکا افغانستان سے ایک لاکھ 23 ہزار شہریوں کو نکالنے میں کامیاب ہوا اور امریکی فوجیوں کا آخری طیارہ رات کے اندھیرے میں کابل سے چلا گیا۔
اگرچہ یہ محض ایک تصویرتھی مگر اس میں جنرل کرس ڈوناہو تیزی سے چلتے ہوئے دکھائی دیے اور ان کے چہرہ بے تاثر پر خوف عیاں تھا۔
انہوں نے مکمل جنگی ساز و سامان پہنا ہوا تھا، ان کے ہیلمیٹ کے اوپر نائٹ وژن گوگلز موجود تھے اور ان کے پاس رائفل بھی تھی۔
تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جنرل کرس ڈوناہو کو اب افغانستان کو پیچھے چھوڑنا تھا اور محفوظ مقام تک پہنچنا تھا۔
امریکا اور سوویت یونین کا افغانستان جیسے ملک سے انخلا، جسے اب سلطنتوں کے قبرستان کے طور پر جانا جاتا ہے، بہت مختلف طریقوں سے ہوا لیکن انہوں نے کم از کم 1842 میں پہلی اینگلو افغان جنگ میں برطانیہ کو ہونے والی تباہ کن شکست سے گریز کیا۔
اس تنازعے کی مستقل تصویر الزبتھ تھامسن کی آئل پینٹنگ ‘ایک آرمی کی باقیات’ کے نام سے موجود ہے جس میں ایک تنہا تھکے ہوئے مسافر، ملٹری اسسٹنٹ سرجن ولیم برائڈن، کو خود سے بھی زیادہ تھکے ہوئے گھوڑے کی زین پکڑے کابل چھوڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

جب روس کی فوج (ریڈ آرمی) نے افغانستان چھوڑا، ماسکو کی حمایت یافتہ کمیونسٹ حکومت اس وقت برسر اقتدار تھی اور اس کی فوج مزید 3 برس تک وہاں موجود تھی جبکہ امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت پہلے ہی ہتھیار ڈال چکی تھی اور امریکی فوجیوں کے انخلا کی 31 اگست کی حتمی ڈیڈلائن سے 2 ہفتے قبل ہی کابل پر طالبان نے قبضہ کرلیا تھا۔
جنرل کرس ڈوناہو اور ان کے ساتھی کابل میں افراتفری سے بھرپور آخری دنوں کی ہولناک یادیں ساتھ لے گئے، جن میں والدین کو خاردار باڑوں سے بچوں کو گزارتے، 2 افغان نوجوانوں کو آسمان میں اڑتے جہاز سے گرتے اور ان انتہائی تکلیف دہ مناظر کو دیکھا جب داعش نے 26 اگست کو ایئرپورٹ کے باہر خودکش بم دھماکہ کیا تھا جس کے نتیجے میں درجنوں افغان اور 13 امریکی ہلاک ہوگئے تھے۔
خیر، آج اس واقعے کو 3 سال مکمل ہوئے۔۔ اس کے بعد افغان حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں پر بات کرنے کو بہت کچھ ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی نے افغانوں کو فتح کرنے کی ٹھانی ہے وہ ناکام ہوا ہے۔ افغان سرزمین سرپھروں اور بتھروں کا وہ قلعہ ہے جس کی فتح کا خواب بہت سوں کو آیا مگر کامیابی کسی کو نصیب نہ ہوئی۔
وہ اقبال نے کہا تھا
افغان باقی، کہسار باقی
الحکم للہ، والمک للہ
دیکھیں: افغان جلاوطنوں کے مسائل، اسلام آباد ڈائیلاگ اور طالبان حکومت کی ستم ظریفی