پاکستان نے افغانستان سے متعلق ہمسایہ ممالک اور روس کے خصوصی نمائندوں کے اجلاس میں بھرپور اور مؤثر انداز میں اپنے مؤقف کا اظہار کیا ہے، جو آج تہران میں منعقد ہوا۔ اجلاس کا افتتاح اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ، عباس عراقچی نے کلیدی خطاب سے کیا۔
پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اعلیٰ سطحی وفد نے صادق خان کی قیادت میں اجلاس میں شرکت کی، جس میں ایران اور کابل میں تعینات پاکستانی سفیروں، وزارتِ خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل افغانستان، اور دیگر سینئر حکام نے شمولیت اختیار کی۔ پاکستان نے واضح کیا کہ اسلام آباد خطے میں امن، ترقی اور استحکام کا خواہاں ہے، تاہم دہشت گردی کے حوالے سے اس کے جائز تحفظات کو سنجیدگی اور مؤثر انداز میں حل کیا جانا ناگزیر ہے۔
Privileged to represent Pakistan at the Meeting of Special Representatives of Afghanistan’s Neighbors + Russia- being held in Tehran today. The Foreign Minister of Iran, HE Mr. Abbas Araghchi, opened the Meeting by a keynote address. Our Ambassodrs to Tehran and Kabul and
— Mohammad Sadiq (@AmbassadorSadiq) December 14, 2025
1/2 pic.twitter.com/YX4bawYDBY
پاکستانی وفد نے اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کی سرزمین سے سرگرم دہشت گرد گروہوں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، داعش خراسان اور دیگر سرحد پار نیٹ ورکس کی موجودگی خطے کے لیے ایک سنگین سکیورٹی چیلنج بنی ہوئی ہے، جس کے حل کے لیے علاقائی تعاون ناگزیر ہے۔
ادھر طالبان حکومت کی جانب سے تہران اجلاس میں شرکت سے انکار نے علاقائی دارالحکومتوں میں تشویش کو مزید بڑھا دیا ہے۔ افغان وزارتِ خارجہ کے مطابق افغانستان نے خصوصی نمائندوں کے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ موجودہ علاقائی فورمز کو ترجیح دینے کے مؤقف کے تحت کیا گیا۔
تاہم سفارتی اور تجزیاتی حلقوں کے مطابق طالبان کی عدم شرکت کو ایک علامتی سفارتی پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران طالبان کی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مختلف افغان دھڑوں کو مشاورت کے عمل میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ طالبان کسی بھی قسم کی جامع بات چیت، اپوزیشن سے مذاکرات یا شراکتی حکومت کے تصور کے لیے تیار نہیں۔
افغانستان کے تہران اجلاس سے دور رہنے کے فیصلے کو علاقائی سکیورٹی منظرنامے میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس عدم شرکت نے ہمسایہ ممالک کے ان خدشات کو تقویت دی ہے کہ کابل کی قیادت سرحد پار عسکریت پسندی اور دہشت گردی جیسے حساس معاملات پر اجتماعی اور کثیرالجہتی جانچ پڑتال سے گریز کر رہی ہے۔
پاکستان، ایران، چین، روس اور وسطی ایشیائی ممالک کے لیے بنیادی تشویش افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کی مسلسل موجودگی اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت ہے۔ طالبان کی جانب سے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کو اس موقع کے ضیاع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کے ذریعے کابل براہِ راست علاقائی تحفظات کا جواب دے سکتا تھا اور شفاف مکالمے کے ذریعے اعتماد سازی ممکن بنا سکتا تھا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق طالبان کی عدم شمولیت مستقبل میں انہیں علاقائی سکیورٹی میکنزمز سے مزید الگ تھلگ کر سکتی ہے، جبکہ خطے کے ممالک افغانستان کی شرکت کے بغیر باہمی یا کثیر فریقی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ یہ صورتحال اس تاثر کو بھی مضبوط کرتی ہے کہ طالبان جامع علاقائی جواب دہی کے بجائے منتخب اور محدود سفارتی روابط کو ترجیح دے رہے ہیں۔
پاکستانی مؤقف کے مطابق اسلام آباد آئندہ بھی دہشت گردی کے خلاف علاقائی تعاون، مکالمے پر مبنی حل اور مشترکہ سکیورٹی فریم ورک کی حمایت جاری رکھے گا۔ تہران اجلاس میں پاکستان کی فعال شرکت اور طالبان کی عدم موجودگی کے درمیان واضح فرق نے ایک بار پھر پاکستان کے تعمیری کردار اور کابل کی ہچکچاہٹ کو نمایاں کر دیا ہے، جو خطے میں امن و استحکام کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
دیکھیں: افغانستان بحران کے دہانے پر، خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق پر عالمی تشویش میں اضافہ