پشاور میں وفاقی کانسٹیبلری (ایف سی) کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والے خودکش حملے میں ملوث دہشت گرد نیٹ ورک کی نشاندہی کر لی گئی ہے، جبکہ تفتیشی حکام نے حملے سے متعلق اہم تفصیلات بھی سامنے آنے کی تصدیق کی ہے۔
یہ خودکش حملہ 24 نومبر کے روز صبح تقریباً 8 بج کر چند منٹ پر پشاور کے مصروف ترین علاقے صدر روڈ پر واقع ایف سی ہیڈکوارٹر پر کیا گیا۔ پولیس اور سکیورٹی حکام کے مطابق تین خودکش حملہ آوروں نے ایف سی ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا، جن میں سے ایک دہشت گرد نے مرکزی دروازے پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جبکہ باقی دو حملہ آور احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران ایف سی اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں ہلاک ہو گئے۔

حملے کے نتیجے میں ایف سی کے تین اہلکار شہید جبکہ پانچ دیگر زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں اسپتال انتظامیہ کے مطابق تمام زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی ہے۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار سے تھا، جو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ایک ذیلی شاخ ہے۔ حکام کے مطابق تینوں خودکش حملہ آور افغان شہری تھے، جنہوں نے حملے سے قبل پشاور میں چند دن قیام کیا، شہر کے مختلف راستوں کی ریکی کی اور حملے کی منصوبہ بندی مکمل کی۔
تفتیش میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ خودکش بمباروں کو شہر میں رہائش فراہم کی گئی، جبکہ خودکش جیکٹس اور بارودی مواد کی تیاری و فراہمی میں سہولت کاروں نے اہم کردار ادا کیا۔ حکام کے مطابق حملے میں استعمال ہونے والے بارودی مواد کی مقدار اور نوعیت سے متعلق رپورٹ بھی تیار کر لی گئی ہے۔
تفتیشی اداروں کا کہنا ہے کہ ایف سی ہیڈکوارٹر پر حملے کے کیس میں اب تک 150 سے زائد افراد سے تفتیش کی جا چکی ہے، جبکہ مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں تاکہ سہولت کاروں اور نیٹ ورک کے دیگر ارکان کو گرفتار کیا جا سکے۔
پولیس کے مطابق حملہ آوروں کا اصل ہدف ایف سی ہیڈکوارٹر میں جاری پریڈ تھی، جس میں 400 سے زائد اہلکار شریک تھے، جبکہ سینیئر افسران کی آمد بھی متوقع تھی۔ تاہم بروقت کارروائی کے باعث حملہ آور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

سکیورٹی حکام کے مطابق حالیہ مہینوں میں خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب سکیورٹی فورسز نے کالعدم ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک گروہوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ حملے انسدادِ دہشت گردی آپریشنز کے ردعمل میں کیے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بھی ایف سی ہیڈکوارٹر پشاور پر ہونے والے خودکش حملے میں ایف سی کے تین اہلکار شہید اور پانچ زخمی ہوئے تھے، جبکہ اس حملے میں بھی تینوں دہشت گرد مارے گئے تھے۔ حکام کے مطابق مسلسل حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دہشت گرد نیٹ ورکس ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے، تاہم ریاستی ادارے ان کے خلاف مربوط اور مسلسل کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دیکھیں: پاکستان کا بھارتی وزیرِ خارجہ کے بے بنیاد اور اشتعال انگیز بیان پر شدید ردعمل