افغانستان میں خواتین کے لیے برقع لازمی قرار دینے کے معاملے پر تضاد سامنے آ گیا ہے۔ طالبان کی وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے وضاحت کی ہے کہ ہرات میں خواتین کے لیے برقع (چادری) پہننا لازمی قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی کسی خاتون کو سرکاری دفاتر میں خدمات حاصل کرنے سے صرف اس بنیاد پر روکا گیا کہ وہ برقع نہیں پہن رہی تھیں۔
وزارت کے مطابق خواتین کو طالبان کے مقرر کردہ “شرعی حجاب” کی پابندی ضرور کرنی ہوگی، تاہم یہ دعویٰ کہ صرف برقع ہی قبول شدہ لباس ہے، درست نہیں۔
دوسری جانب مقامی ذرائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہرات میں طالبان اہلکار خواتین کو برقع پہننے پر مجبور کر رہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق 14 عقرب (مطابق 6 نومبر) سے طالبان نے ہرات کے سرکاری دفاتر اور اسپتالوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے اگر وہ برقع میں ملبوس نہ ہوں۔
عینی شاہدین کے مطابق ہرات کے زونل اسپتال میں خواتین مریضوں، تیمارداروں اور حتیٰ کہ طبی عملے کو بھی چادری نہ پہننے پر داخلے سے روک دیا گیا۔ یہ صورتحال افغانستان میں خواتین کے حقوق اور عوامی خدمات تک ان کی رسائی کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دے رہی ہے۔
دیکھیں: افغان وزرا کے پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات اور بھارتی میڈیا میں پذیرائی