افغانستان میں ایک بار پھر طالبان کے “مکمل کنٹرول” کے سابقہ دعواؤں پر سوالات اٹھ گئے ہیں، جب کہ این آر ایف کی جانب سے حالیہ ہرات آپریشن نے یہ دکھا دیا کہ مسلح مزاحمت پوری افغانستان میں پھیلی ہوئی ہے۔
این آر ایف کی کارروائیاں: اعداد و شمار اور توسیع
- این آر ایف نے خود دعویٰ کیا ہے کہ مارچ 2024 سے مارچ 2025 کے دوران اس نے 401 ہدف شدہ آپریشنز کیے، اور ان کارروائیوں میں 19 صوبوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں کابل، ہرات، بغلان، قندوز، تاکر، بدخشاں، غزنی اور دیگر شامل ہیں۔
- ذرائع کے مطابق ان آپریشنز میں طالبان کے 651 جنگجو ہلاک اور 579 زخمی ہوئے۔
- یہ تعداد واضح کرتی ہے کہ NRF کی فوجی فعالیت اور مزاحمتی طاقت نے طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں پھیلاؤ اختیار کر لیا ہے، اور یہ صرف شمالی یا پہاڑی علاقوں تک محدود نہیں رہی۔
طالبان کا کنٹرول متزلزل — افغانستان کا منظرنامہ
این آر ایف کی یہ تسلسل اور آپریشنز کی تعدد اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ:
- طالبان ظاہری طور پر ملک کے مختلف خطوں پر قابض ضرور ہیں، مگر ان کا “کل کنٹرول” کا دعویٰ حقیقت سے بعید محسوس ہوتا ہے۔
- افغانستان اب مکمل طور پر ایک ہی طاقت کے قبضے میں نہیں، بلکہ مختلف مسلح گروہ، بشمول NRF، ISKP و دیگر تنظیمیں اور مقامی نیٹ ورکس، ایک پیچیدہ اندرونی کشیدگی کا حصہ ہیں۔
- یہ انتشار صرف ایک اندرونی خانہ جنگی کا پہلو نہیں، بلکہ اس سے خطے میں ریاستی عدم استحکام، انسانی المیے، اور سرحدی سکیورٹی خدشات جنم لیتے ہیں۔
پاکستان کے لیے تشویش
پاکستان کے لیے صورتِ حال واضح ہے:
- مسئلہ صرف یہ نہیں کہ کس گروہ نے حملہ کیا، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ افغانی سرزمین اب تک غیر مستحکم اور جنگ زدہ ماحول فراہم کرتی ہے جہاں مختلف مسلح دھڑے ازسرنو تشکیل پا سکتے ہیں اور دوبارہ منظم ہو سکتے ہیں۔
- اس عدم استحکام کی فضا ٹی ٹی پی یا دیگر دہشت گرد گروہوں کو سرحد پار نقل و حرکت، پناہ گاہیں یا فیکں قائم کرنے کے لیے آسان بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد بارہا کابل سے واضح اور قابلِ تصدیق انسدادِ دہشت گردی ضمانتوں کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔
- طالبان کی کمزوری اور اندرونی بغاوتیں، اگر کامیاب رہیں، تو ایک بار پھر یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ بیرونی دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر پاکستان میں اپنا آپریشن بڑھا دیں۔
این آر ایف کی حالیہ کارروائی اور 401 آپریشنز کی دستاویزی تعداد یہ ثابت کرتی ہے کہ طالبان کی “کل گرفت” کی کہانی محض پروپیگنڈا نہیں بلکہ ایک ایسے دعوے پر مشتمل ہے جس کی حقیقت زمین پر ڈگمگا رہی ہے۔ افغانستان آج ایک متنوع جنگ زدہ سیاسی و سکیورٹی میدان ہے جہاں سرحدی خطے، دہشت گردانہ نیٹ ورک اور مسلح دھڑے سب مل کر خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
پاکستان کی تشویش بجا ہے: جب تک افغانستان میں ایسی صورتِ حال برقرار ہے، جنگ زدہ عناصر کے خلاف حقیقی اور شفاف بین الاقوامی مہم ضروری ہے تاکہ نہ صرف افغان عوام کو امن میسر آئے بلکہ پاکستان اور پورے خطے کی سلامتی بھی محفوظ رہے۔