بھارت کو جدید ٹیکنالوجی کے عالمی اتحاد “پیکس سیلیکا” میں شامل نہ کیے جانے کے بعد نئی دہلی میں سیاسی اور اسٹریٹجک حلقوں میں شدید بحث شروع ہو گئی ہے، جبکہ بھارتی اپوزیشن نے اس پیش رفت کو مودی حکومت کی خارجہ اور ٹیکنالوجی پالیسی کی بڑی ناکامی قرار دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ برسوں سے امریکا اور بھارت کے درمیان ٹیکنالوجی شراکت داری، سپلائی چین تعاون اور اسٹریٹجک کنورجنس پر بلند بانگ دعوؤں کے باوجود بھارت کا پیکس سیلیکا جیسے ہائی ٹرسٹ ڈیجیٹل اتحاد سے باہر رہ جانا عالمی سطح پر بھارت کی گرتی ہوئی ساکھ کی عکاسی کرتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق پیکس سیلیکا کا مقصد اہم معدنیات، توانائی، ایڈوانس مینوفیکچرنگ، سیمی کنڈکٹرز، مصنوعی ذہانت کے انفراسٹرکچر اور لاجسٹکس پر مشتمل ایک محفوظ، لچکدار اور ترقی یافتہ سلیکون سپلائی چین قائم کرنا ہے۔ اس اتحاد کو مستقبل کی ہائی ٹیک معیشت کا بنیادی ستون قرار دیا جا رہا ہے۔
اس اتحاد میں اس وقت جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور، نیدرلینڈز، برطانیہ، اسرائیل، متحدہ عرب امارات، آسٹریلیا، کینیڈا اور یورپی یونین شامل ہیں، جو دنیا کے جدید ترین سیمی کنڈکٹر اور اے آئی ایکو سسٹمز کے حامل ممالک سمجھے جاتے ہیں۔ بھارت کی غیر موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ واشنگٹن اب علامتی اسٹریٹجک شراکت داری کے بجائے حقیقی اور قابلِ تصدیق صلاحیتوں کی بنیاد پر ٹیکنالوجی اتحاد تشکیل دے رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ بھارت امریکا کا ایک اہم جیوپولیٹیکل شراکت دار ہے، تاہم وہ اب تک عالمی سیمی کنڈکٹر یا مصنوعی ذہانت کی سپلائی چین میں “سسٹم-کرٹیکل نوڈ” کا درجہ حاصل نہیں کر سکا۔ بھارت کے پاس جدید چِپ فیبریکیشن، جدید لِتھوگرافی، ہائی اینڈ سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ اور مکمل طور پر قابلِ اعتماد ٹیک سپلائی چین کا وہ بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں جو پیکس سیلیکا جیسے ہائی ٹرسٹ اتحاد کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
اتحاد کے اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے عالمی خطرات کے پیش نظر مصنوعی ذہانت کے بنیادی مواد اور صلاحیتوں کے تحفظ کی فوری ضرورت ہے، جبکہ جبری انحصار سے نکل کر محفوظ اور خود مختار سپلائی چین کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ یہ اہداف ان ممالک کے لیے زیادہ موزوں قرار دیے گئے ہیں جن کے پاس مکمل تکنیکی اور صنعتی صلاحیت موجود ہو۔
بھارت کی شمولیت میں ایک بڑی رکاوٹ اس کے وہ دیرینہ تجارتی اور ریگولیٹری تنازعات بھی ہیں جن میں ڈیجیٹل ٹیکس، ڈیٹا لوکلائزیشن قوانین، انٹلیکچوئل پراپرٹی کے تحفظ سے متعلق خدشات اور غیر یقینی ریگولیٹری ماحول شامل ہیں۔ ان اختلافات نے امریکا-بھارت آزاد تجارتی معاہدے میں پیش رفت کو بھی متاثر کیا ہے اور ٹیکنالوجی انٹیگریشن کی رفتار سست کر دی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پیکس سیلیکا کا قیام اس بات کی علامت ہے کہ امریکا کی معاشی سفارت کاری اب “ہائی کیپیبلٹی بلاکس” کی جانب بڑھ رہی ہے، جہاں شراکت داری کا معیار سیاسی قربت نہیں بلکہ عملی صلاحیت اور ٹیکنالوجیکل اعتماد ہے۔ بھارتی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی پالیسیوں نے بھارت کو اس نئے عالمی ٹیک نظام میں پیچھے دھکیل دیا ہے۔
بھارتی اپوزیشن نے پیکس سیلیکا سے بھارت کے اخراج کو کسی سفارتی توہین کے بجائے ایک سنجیدہ اسٹریٹجک انتباہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت محض بیانیے کے بجائے حقیقی ٹیکنالوجی صلاحیتوں، صنعتی ڈھانچے اور ریگولیٹری اصلاحات پر توجہ دے، ورنہ بھارت مستقبل کے اہم عالمی ٹیک اتحادوں سے مزید باہر ہوتا چلا جائے گا۔