حکومت پاکستان کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے ۔اس خبر نے دونوں ممالک کو پھر سے کشیدگی کے دوراہے پہ لا کھڑا کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ امن کی آخری کوشش تھی ۔
دیورنڈ لائن کے درمیان 2600 کلو میٹر کی سرحد پر تصادم اور جھڑپوں نے تجارت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے جس سے ہزاروں لوگوں کا براہ راست روزگار وابستہ ہے ۔
11-12 اکتوبر کی شب پاکستان اور افغانستان کی فوجوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں بھاری اسلحے کا استعمال کیا گیا اس جنگ میں پاکستان کے 25 جبکہ افغانستان کے 250 سے 300 جنگجو جانبحق ہوگئے۔
جبکہ درجنوں مکانات تباہ اور سینکڑوں افراد نے نقل مکانی کی اس کے علاوہ طورخم اور چمن بارڈر کی بندش سے دونوں ممالک کے درمیان تقریبا 15 سے 20 ملین امریکی ڈالر متاثر ہورہی ہے۔
دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان ایسے کیا حالات پیدا ہوگئے کہ وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ کھڑے ہوگئے۔
افغانستان جیسا خطہ جو دہائیوں سے غیر ملکی مداخلت ،جنگ و جدل ،خانہ جنگی اور دیگر مسائل سے دوچار ہے اس وقت ایک مرتبہ پھر غلط راستے پہ چل کے خود کو آگ میں جھونک رہا ہے۔ ایک طرف اس کی بھارت نواز پالیسیاں دوسری جانب پاکستان جیسے ملک میں مسلسل دراندازی و مداخلت وہ پاکستان جس نے دامے درمے سخنے افغانستان کا ساتھ دیا اور اسے کبھی تنہائ کا احساس نہیں ہونے دیا۔
جبکہ پاکستان کا مطالبہ واضح یے کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرے اور تحریک طالبان کو لگام ڈالے تاہم افغانستان اپنی روش پہ قائم رہا ۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مسلسل دراندازی ،سیکیورٹی فورسز کی شہادتوں اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے مجبوراً افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پہ حملے کیے جس میں بھاری نقصان کے بعد افغانستان ثالثی کے لیے تیار ہوگیا اور مذاکرات کا پہلا راؤنڈ قطر کے شہر دوحہ میں انجام پایا جس میں افغانستان کی جانب سے جنگ بندی کی درخواست کی گئ جسے پاکستان نے قبول کرلیا جبکہ ترکی اور قطر نے ثالث کا کردار ادا کیا۔
طے شدہ نکات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ استنبول میں رکھا گیا۔ تاہم یہ مذاکرات ناکامی کا شکار ہوگئے اور کسی بھی نتیجے پہ پہنچنے سے قبل ہی ختم ہوگئے ۔
مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا پاکستان کو ایک چھوٹے پیمانے کی جنگ میں ملوث رکھنا چاہتا ہے اور کابل اس کو عملی جامہ پہنا رہا ہے ۔
کابل کی عبوری حکومت تحریک طالبان کے خلاف کاروائ کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور افغان وفد کے پاس کسی بھی قسم کے اختیارات نہیں تھے ۔انڈیا کابل کے اندر پوری طرح سرایت کرچکا ہے ۔
اس وقت افغانستان اپنی تاریخ کی ناکام ترین خارجہ پالیسی پہ عمل پیرا ہے جہاں وہ علاقائ سیاست میں مکمل طور پہ ناکام ہوچکا ہے وہاں کوئ ریاست کیسے یہ امید رکھ سکتی یے کہ وہ عالمی سطح پہ ایک ذمہ دار ریاست کا ثبوت دے سکے گا ۔۔
عالمی مبصرین ،تجزیہ نگار ،دونوں ممالک کے عوام اس تمام تر صورتحال کے حوالے سے شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ افغانستان جو اپنے اندرونی حالات کی شکستگی سے دوچار ہے۔
دیائیوں سے جاری جنگ کے اثرات سے نبرد آزما ہے کیونکر بھارت کی پراکسی وار کا حصہ بن رہا ہے نہ کہ پاکستان جیسے برادر اسلامی ملک کی ہمسائیگی کا فائدہ اٹھا کے دنیا کے ممالک کی صفوں میں عزت سے سر اٹھا کے جینا سیکھتا اس نے دشمن کی صف میں کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ کیا افغانستان خطے میں امن نہیں چاہتا؟ یا وہ چاہتا ہے کہ یہ خطہ اور اس کے باسی یونہی جنگ کی آگ میں سلگتے رہیں؟