پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کے دوسرے دور کا باضابطہ آغاز ہو گیا ہے۔ یہ مذاکرات قطر اور ترکیہ کی مشترکہ ثالثی میں ہو رہے ہیں اور ان کا مقصد حالیہ سرحدی کشیدگی کے بعد ابھرنے والی نازک جنگ بندی کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات میں تین نکاتی ایجنڈے پر بات چیت کی جا رہی ہے، جس میں سرحدی تحفظ، تجارتی گزرگاہوں کی بحالی اور انٹیلی جنس تعاون شامل ہیں۔
افغان وفد کی قیادت نجيب حقانی کر رہے ہیں، جو جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کے سینئر رکن ہیں اور سراج الدین حقانی کی نگرانی میں سرحدی معاملات کے بعض امور دیکھ رہے ہیں۔ وفد میں سہیل شاہین، انس حقانی، وزارتِ خارجہ کے سیاسی امور کے ڈائریکٹر نور احمد نور، وزارتِ دفاع کے نائب نورالرحمان نصرت اور وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق کندھاری قیادت نے اس بار ایک چھوٹا اور زیادہ منظم وفد تشکیل دیا ہے، جبکہ جی ڈی آئی کے سربراہ عبد الحق وثیق کو شامل نہیں کیا گیا۔
پاکستانی وفد میں سات اراکین شامل ہیں، جن میں انٹیلیجنس، سکیورٹی اور بیوروکریسی کے اعلیٰ عہدیداران شامل ہیں۔ تاہم سرکاری طور پر پاکستانی نمائندوں کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے شریک دو کلیدی ارکان کا تعلق عسکری اداروں سے ہے۔
واضح رہے کہ مذاکرات کا پہلا دور دوحہ میں منعقد ہوا تھا، جس میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس معاہدے پر بظاہر عمل درآمد جاری ہے، تاہم چودہ دن گزرنے کے باوجود طورخم، اسپن بولدک، شمالی و جنوبی وزیرستان اور کرم کی تجارتی گزرگاہیں تاحال بند ہیں، جس سے تجارت اور نقل و حمل بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
استنبول مذاکرات کو تجزیہ کار ایک اہم سفارتی پیش رفت قرار دے رہے ہیں، جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بگڑتے تعلقات میں اعتماد سازی کی سمت ایک نئی کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔