اگر اس محاورے کے معنی اور مقصد پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ کا ہمسایہ خوش ہے تو ظاہر ہے آپ بھی خوش ہونگے ،اس لئے کہ اپ اس کی ہر خوشی میں شریک ہونگے اور اگر اپ کا ہمسایہ دکھ میں ہو تو ظاہری بات ہے کہ آپ ہمسائے کے دکھ اور سختی میں اس کے ساتھ شریک ہونگے اور اس دکھ سے آپ بھی بری طرح متاثر ہونگے۔
پاکستان اور افغانستان دو مسلمان ہمسایہ ممالک ہیں اور ان ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دین اسلام اور ایمان کے عقیدے کی وجہ سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
اگر پاکستان اور افغانستان کے پچھلے چالیس پچاس سال تعلقات پر نظر ڈالی جائیں تو اس میں کافی نشیب و فراز آئے ہیں لیکن دنیا گواہ ہے کہ جب بھی افغانستان اور افغان قوم پر کوئی مشکل پیش آئی تو پاکستان نے افغان عوام کی ہرممکن مدد کی ہے۔
جب 70 کی دہائی میں افغانستان میں سیاسی حالات خراب تھے اور 1979 میں متحدہ سوویت یونین نے افغانستان میں لاکھوں روسی فوجی اتار کر افغانستان کو قبضہ کرنے کا خواب دیکھا تو اس کی وجہ سے ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین میں بھی بے چینی اور تشویش پھیل گئی اس لئے کہ روس کا پلان تھا کہ وہ گرم پانیوں تک پہنچے جس کی وجہ سے پاکستان کو بھی سکیورٹی خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔
روس نے جب افغانستان پر قبضہ جمایا تو لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین نے ہمسایہ ممالک ہجرت شروع کی، لاکھوں افغان مہاجرین ایران اور پاکستان ہجرت کرگئے۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانی قوم نے افغان مہاجرین کو اپنے دلوں میں بسایا اور افغان مہاجرین کو اپنے ہی گھروں میں بسنے دیا۔
اگرچہ دیگر ہمسایہ ممالک نے افغان مہاجرین کو مہاجر کیمپوں میں رکھا اور ان پر تعلیم حاصل کرنے اور آزاد کاروبار کرنے کی پابندیاں تھی لیکن پاکستان میں اس طرح نہیں تھا، پاکستان میں افغان مہاجرین کے بچوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی، افغان مہاجرین کے بچوں نے پاکستان میں اعلی تعلیم حاصل کی اور انھوں نے پاکستان میں اپنا کاروبار بھی شروع کیا اور اج سب گواہ ہیں کہ افغان مہاجرین کا پاکستان کے ہر شہر میں بہترین کاروبار ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی عوام نے افغان مہاجرین کو اپنے دلوں میں بسایا ۔
اب حال ہی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی ایک نئی مثبت شروعات کے بارے میں بات کرتے ہیں، 2023 کے بعد افغانستان حکومت کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کل 4 اگست کو پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں۔
امید ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ دورہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان خوشگوار تعلقات کو مزید پروان چڑھانے مین سنگ میل ثابت ہوگا اس لئے کہ اب افغان اور پاکستان حکام خوب سمجھ چکے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان مقابلہ نہیں بلکہ ایک مسلسل رابطہ اور تعاون بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔
متقی کا یہ دورہ اس وقت ہے جب پاکستان کا افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں سکیورٹی حالات کافی خراب ہے، حکام کے مطابق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوں مسلسل پاکستانی فورسز کو افغانستان کی سرزمین سے نشانہ بنا رہے ہیں۔
متقی کے دورہ اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساتھ اہم موضوعات جیسے دہشت گردی کی روک تھام، سرحدی علاقوں میں فتنہ الخوارج کی موجودگی اور دوطرفہ تجارت کو فروغ جیسے اہم موضوع پر بات چیت شامل ہے۔
افغان وزیر خارجہ اسلام آباد دورے کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف ،وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور اعلی فوجی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کریں گا۔
ذرائع کے مطابق سال 2022 سے اب تک افغانستان سے فتنہ الخوارج نے پاکستانی فورسز پر 400 سے زیادہ دہشت گرد حملے کئے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال ہورہی ہے۔
افغانستان کی اعلی قیادت کو یہ خوب علم ہے کہ فتنہ الخوارج دونوں ممالک کے درمیان امن کے راستہ میں ایک بنیادی روکاوٹ ہے اور چاہئے کہ اس فتنہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔
اس اہم دورہ میں پاک افغان دو طرفہ تجارت کو فروغ دینا جیسے اہم موضوع بھی شامل ہے اس لئے کہ سال 25-2024 کے مالی سال میں افغانستان کو پاکستان کی ایکسپورٹ 68۔38 فیصد بڑھ چکی ہے اور پاکستان کا وسطی ایشیا کے ساتھ تجارتی فروغ بڑھ رہا ہے۔
یہ بھی امید کی جارہی ہے کہ اس دورہ کے دوران افغآنستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ کو دوبارہ فعال کرنا اور کسٹم امور میں ہم آہنگی کو ترجیح دینا جیسے موضوعات بھی زیر بحث آئیں گے جو تجارتی سہولتوں اور تنازعات میں کمی کے لئے اہم اقدامات تصور کئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں اگست 2021 کے بعد غیر قانونی طور پر رہایش پذیر افغان مہاجرین کا معاملہ بھی کافی حساس ہے، امید کی جارہی ہے کہ دونوں ممالک یہ موضوع اور معاملہ بھی خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لئے اقدامات کریں گے جو نہ صرف سیکوریٹی خدشات کو دور کرنے کا احاطہ کریں گے بلکہ انسانی وقار کا بھی خیال کریں گے۔
متقی کے دورہ اسلام آباد کے دوران اہم پاکستانی فوجی قیادت کے ساتھ بھی ملاقاتیں کریں گے اور ان کے ساتھ بارڈر منیجمنٹ، سرحدی علاقوں میں سکیورٹی حالات جیسے حساس موضوعات پر سنجیدہ بحث کریں گے۔
اس اہم دورہ کے دوران شیڈول ہے کہ متقی اسلام آباد کے اسٹریٹیجک سڈڈیز انسٹیٹیوٹ میں بھی اپنا خطاب کریں گے۔
دفاعی اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے حکام کو ایک موقع فراہم کریں گا کہ اپنے مسائل اور مطالبات کو کھل کر ایک دوسرے کے سامنے رکھیں۔
اس تحریر کو لکھتے وقت یہ خبرآئی ہے کہ امیر خان متقی کا 4 اگست کا دورہ پاکستان ملتوی کیا گیا ہے۔
اگر ایک طرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کا ایک خوشگوار مرحلہ شروع ہوچکا ہے تو دوسری طرف پاک افغان تعلقات میں رکاوٹ ڈالنے اور امن و امان کی صورت حال خراب کرنے میں ایک ہی عنصر ہے۔
یہ عنصرسرحدی علاقوں میں پاکستان مخالف عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی جو اس تمام خطہ کے امن و امان اور ترقی کے خلاف ہے اور اب وقت آچکا ہے کہ دونوں ممالک اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں۔
اس وقت پاکستان کا افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں وادی تیراہ اور باجوڑ میں امن و امان کی صورت حال خراب ہے۔ سرحد پار سے ٹی ٹی پی کے جنگجوں ان علاقوں میں پاکستان سکیورٹی فورسز اور عام آبادی کو نشانہ بنارہے ہیں جس کی وجہ سے سکیورٹی فورسز اور عام آبادی کو کافی مالی و جانی نقصان پہنچ چکا ہے۔
دوسری طرف ان علاقوں میں مقامی مشران کا ان عسکریت پسندوں کے ساتھ جرگے بھی جاری ہے۔
ناامیدی اور بدامنی کی ایسی صورت حال میں اگر دونوں ممالک کی سیاسی اور فوجی قیادت مقامی مشران کے ساتھ ملکر ان عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کریں تو اس سے مسئلہ حل کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے اس لئے کہ باجوڑ میں مسلح گروپ کے کمانڈرز نے مشران پر واضح کیا ہے کہ اگر ان پر مسلح حملے بند کئے جائیں تو تب ہی بات چیت کا آگے بڑھنا ممکن ہے وگرنہ ہم زمہ دار نہیں۔
دیکھیں: پاک فوج نے افغان سرحد کے نزدیک دہشتگردوں کے خلاف “آپریشن سر بکف” لانچ کر دیا