پاک افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے تیسرے اور فیصلہ کُن دور کا آغاز آج ترکی میں ہونے جا رہا ہے۔ مذاکرات کے تیسرے دور کو خطے کی سلامتی سمیت پاک افغان کے مابین کے لیے انتہائی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
دیکھا جائے تو یہ مذاکراتی سلسلہ اس سے قبل قطر اور ترکی میں منعقد ہو چکا ہے، تاہم پہلے دونوں ادوار کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہے۔ گزشتہ مذاکرات جو 25 اکتوبر کو منعقد ہوئے کئی گھنٹوں پر محیط ہونے کے باوجود افغان طالبان کی جانب سے وہی رسمی باتیں اور غیر سنجیدگی سامنے آئی جس کے باعث مذاکاراتی عمل نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ اجلاس کے دوران افغان وفد کابل اور قندہار سے مسلسل ہدایات حاصل کرتے رہے، جس سے مذاکراتی عمل اور باہمی اعتماد شدید متاثر ہوا۔ تاہم ان سب کے باوجود فریقین ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر جمع ہیں۔
ترک وزارتِ خارجہ کا اعلامیہ
ترک وزارت خارجہ کے اعلامیے میں فریقین کی جانب سے چند اہم معاملات پر پیشرفت کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق۔
قیامِ امن کے لیے ایک نگرانی اور تصدیقی میکنزم تشکیل دینے پر غور۔
معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر کے لیے سزائی ضابطہ وضع کرنے پر بھی اتفاق رائے ہوا۔
تےرک وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ فریقین نے 6 نومبر کو مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ باہمی اعتماد مضبوط ہوسکے۔
فریقین کے وفود مین شامل افراد
افغان طالبان کے وفد میں چھ افراد شامل ہیّ، جن میں انس حقانی (جو حقانی نیٹ ورک سے وابستہ ہیں اور تحریک طالبان پاکستان پر اثر رکھتے ہیں) اور سهیل شاہین (سابقہ دوحہ مذاکرات میں شریک رہے) جیسی اہم شخصیات شامل ہیں۔ ان افراد کا افغان طالبان وفد مین شامل ہونا اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ افغان حکومت اس مذاکراتی دور کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

جبکہ پاکستانی وفد میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک اور ان کے ساتھ سینیئر فوجی حکام شریک ہیں۔ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے، دہشتگرد گروہوں بالخصوص ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے خلاف مؤثر و عملی کارروائی کی جائے اور سرحدی راستوں کو مستقل امن کے ذریعے کھولا جائے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف
اس موقع پر پاکستاننی وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ مذاکرات اسی وقت کیے جاتے ہیں جب پیش رفت کے امکانات موجود ہوں۔ پاکستان کا مؤقف روزِ اوّل سے واضح و دوٹوک رہا ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے بند کیے جائیں۔ ہمیں امید ہے کہ افغان طالبان دانشمندی سے کام لیں گے تاکہ پورے خطے میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہو سکے۔
ماہرین کے نزدیک اگر اس دورِ مذاکرات میں باہمی اعتماد اور دہشتگردی کے خلاف کے لیے کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ خطے میں ایک نئے اور زیادہ مستحکم دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں گزشتہ 26 دنوں سے بند پاک افغان زمینی راستوں کے کھلنے کے امکانات بھی روشن ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت سمیت عوام کے آمدورفت کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔