افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارت اور سرحدی روابط ہمیشہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد سمجھے جاتے رہے ہیں۔ تاہم، گذشتہ ماہ سرحدی جھڑپوں، سفارتی کشیدگی، اور مذاکرات کے تین غیر نتیجہ خیز ادوار کے بعد افغان حکومت نے اپنے صنعت کاروں اور تاجروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ پاکستان کے بجائے متبادل تجارتی راستے اور شراکت دار تلاش کریں۔ نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر کی زیرِ صدارت اجلاس میں یہ بھی عندیہ دیا گیا کہ پاکستان سے ادویات اور دیگر اشیائے ضرورت کی درآمد پر پابندی لگانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب افغانستان کے سب سے بڑے بزنس ٹائیکون خان جان الکوزئی نے کہا کہ افغانستان کی پاکستان کے ساتھ تجارت معطل ہونے کا مطلب ہے کہ افغانستان کی تجارت بڑی حد تک اپنے خاتمے کی جانب گامزن ہوگی اور تاجروں کو معاشی قتل عام ہوگا۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ 32 دن سے پاک–افغان سرحد بند ہے۔ طورخم، چمن اور گولن جیسے بڑے تجارتی راستے مکمل طور پر غیر فعال ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً 8,000 سے زائد ٹرک مختلف اشیاء سے لدے کھڑے ہیں، جن کی مالیت 50 سے 70 ملین امریکی ڈالر کے درمیان بتائی جا رہی ہے۔ ان میں بڑی تعداد غذائی اجناس، پھل، ادویات اور صنعتی سامان کی ہے جو خراب ہونے کے قریب ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت گزشتہ سال تقریباً 1.2 ارب ڈالر تک جا پہنچی تھی، جس میں پاکستان کا حصہ 70 فیصد سے زائد تھا۔ پاکستان سے افغانستان کو ادویات، تعمیراتی سامان، کپڑا، خوراک، اور تیل برآمد کیا جاتا ہے، جبکہ افغانستان سے پاکستان کو خشک میوہ جات، جڑی بوٹیاں، کوئلہ، اور بعض زرعی اجناس حاصل ہوتی ہیں۔ ان شعبوں سے وابستہ کم از کم 150,000 مزدور، ڈرائیور، کلیرنگ ایجنٹس اور تاجران براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت نہ صرف جغرافیائی طور پر سستی اور آسان ہے بلکہ وقت کے لحاظ سے بھی فائدہ مند ہے۔ پاکستان کے بندرگاہی شہر کراچی اور گوادر افغان تاجروں کے لیے قدرتی راستہ فراہم کرتے ہیں، جہاں سے ٹرانسپورٹ لاگت دیگر ممالک کے مقابلے میں 40 فیصد تک کم پڑتی ہے۔ اگر افغانستان وسطی ایشیائی یا ایرانی راستے اختیار کرتا ہے تو نہ صرف لاگت میں دوگنا اضافہ ہوگا بلکہ ترسیل کا وقت بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔
افغانستان کا یہ فیصلہ بظاہر وقتی سیاسی ردِعمل معلوم ہوتا ہے، مگر اس کے معاشی نتائج دور رس ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان پہلے ہی غیر ملکی سرمایہ کاری میں 60 فیصد کمی، بیرونی ذخائر کی شدید کمی، اور افراطِ زر کی 12 فیصد شرح سے دوچار ہے، پاکستان سے تجارتی تعلقات منقطع کرنا دراصل اپنی ہی معیشت کو مزید کمزور کرنا ہے۔
پاکستانی معیشت پر بھی اس صورتِ حال کے اثرات مرتب ہوں گے، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بارڈر شہروں میں، جہاں سرحدی تجارت مقامی معیشت کا بنیادی سہارا ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق افغانستان کی نسبت پاکستان کا نقصان نسبتاً محدود ہوگا، کیونکہ پاکستان کے پاس متبادل برآمدی منڈیاں (جیسے مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیاء) موجود ہیں۔
افغانستان کی حکومت اگر واقعی خود انحصاری کی سمت جانا چاہتی ہے تو اسے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات ختم کرنے کے بجائے شفاف پالیسی فریم ورک، تجارتی تحفظ، اور علاقائی تعاون پر توجہ دینی چاہیے۔ بصورت دیگر، موجودہ فیصلہ نہ صرف افغان عوام کی مشکلات میں اضافہ کرے گا بلکہ خطے میں پہلے سے نازک امن و استحکام کے امکانات کو بھی کمزور کر دے گا۔
دیکھیں: پاکستان کے بجائے ہمیں متبادل ذرائع اور تجارتی راستوں کی طرف توجہ دینی چاہیے، عبدالغنی برادر