افغانستان کے نائب وزیرِاعظم ملا برادر کی پریس کانفرنس کے دوران ملا رحمت اللہ نجيب کے بیان پر پاکستان نے شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف فتویٰ دینے سے انکار کرنا، سرحد پار حملوں کو نظر انداز اور پاکستان کی فضائی کارروائیوں پر اعتراض کرنا دراصل دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کرنے کےمترادف ہے۔
افغان طالبان کا طرزِ عمل: انکار اور الزام تراشی
ریاستِ پاکستان نے دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف عملی کاروائی نہ کرنا درحقیقت سرحد پار دہشت گرد گروہوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ ترجمانِ خارجہ پاکستان کے مطابق افغان طالبان حکومت کا طرزِ عمل انکار اور الزام تراشی پر قائم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف فتویٰ نہ جاری کرنا اور کاروائی سے انکار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انتہاپسند و دہشت گروہوں کے ساتھ انکے سیاسی و نظریاتی وابستگیاں ہیں نہ کہ کوئی رسمی تعلق۔
پاکستانی حکام نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے حملوں کی منصوبہ بندی اور سرپرستی افغان سرزمین سے ہوتی ہے جس کی تصدیق عالمی برادری بھی کرچکی ہے۔ ترجمان کے مطابق پاکستان کا مطالبہ ہمیشہ سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کا رہا ہے نہ کہ رسمی کاروائی یا محض بیانات دینے کا۔ افغان طالبان کی جانب سے عدمِ مداخلت کا دعویٰ اس وقت کھوکھلا ہو جاتا ہے جب افغان سرزمین سے روزانہ کی بنیاد پر پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کی جارہی ہوں۔
پاکستان سے تحفظ کا مطالبہ اور دہشت گردوں کو پناہ دینا
ریاستِ پاکستان نے افغان طالبان کے اس موقف کو بھی واضح متضاد قرار دیا ہے جس میں وہ ایک جانب تو پاکستان سے اپنے تحفظ و سلامتی کی ضمانت مانگ رہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کے خلاف مسلح گروہوں کو افغان سرزمین میں پناہ دیے ہوئے ہیں۔
پاکستان نے پاک افغان مذاکرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی انتظامات اور عارضی تجارتی پابندیاں قومی سلامتی کی بنا پر ہیں جنکا مقصد افغان عوام کو مشکلات میں ڈالنا نہیں بلکہ اپنے شہریوں کا تحفظ کرنا ہے۔
امن عملی اقدامات سے ہی ممکن ہے
ریاستِ پاکستان نے افغان حکام کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں مستقل امن محض بیانات سے نہیں بلکہ امن دشمن گروہوں کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں، سرحدوں پر دراندازی کا خاتمہ اور استنبول معاہدے جیسی تحریری ضمانتوں پر عملدرآمد ہی امن و استحکام کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
دیکھیں: پشاور میں تاریخی امن جرگہ؛ دہشت گردی کی مذمت، پاک افغان تجارت کھولنے اور صوبائی ایکشن پلان کی تجویز