پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ”باہمی دفاعی معاہدہ” ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف دونوں برادر ممالک کے دیرینہ تعلقات کو ایک نئی جہت دیتا ہے بلکہ خطے اور دنیا کے لیے ایک واضح پیغام بھی ہے کہ اب کوئی بھی جارحیت کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا دونوں بڑے بحرانوں سے گزر رہے ہیں۔ اسرائیل کے حالیہ حملے نے قطر کے دارالحکومت دوحہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ سعودی قیادت نے اس پر کھل کر اپنا مؤقف اپنایا اور او آئی سی اجلاس میں عرب و اسلامی دنیا کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ اسرائیلی جارحیت جو دو برس سے غزہ میں قہر برسا رہی ہے، اب مشرق وسطی میں خطرناک حد تک پھیلتی جا رہی ہے اور امریکہ اس کی پشت پناہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ قطر پر حملے کے بعد کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہوگی اگر اسرائیل سعودی عرب کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان رواں برس کی شدید کشیدگی اور اسرائیلی ڈرونز و ٹیکنالوجی کی بھارت کو فراہمی نے یہ واضح کر دیا کہ علاقائی تنازعات میں اب عالمی قوتیں براہِ راست ملوث ہو رہی ہیں۔ ایسے پس منظر میں پاکستان–سعودیہ دفاعی معاہدہ کسی عام ڈیل کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ یہ ایک خطی و عالمی اسٹریٹجک ردعمل ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط ہیں۔1970 میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس جہاں ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل نے مسلم دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا تھا، اسے آج بھی ایک تاریخی لمحہ سمجھا جاتا ہے۔ اب نصف صدی بعد یہ نیا معاہدہ بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے، جس میں دونوں ممالک نے ایک بار پھر امتِ مسلمہ اور خطے کے دفاع کو ترجیح دی ہے۔
پاکستان کو ہمیشہ سے سعودی عرب کے ساتھ خصوصی تعلقات پر فخر رہا ہے۔ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں روزگار سے وابستہ ہیں، اور سالانہ اربوں ڈالر کی ترسیلاتِ زر بھیجتے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب نے ہمیشہ معاشی بحرانوں اور مشکل وقت میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ مگر اس بار معاملہ صرف معیشت یا سماجی تعلقات تک محدود نہیں رہا، بلکہ براہِ راست دفاعی اتحاد میں بدل گیا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کی عسکری صلاحیتوں، خاص طور پر ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی، اور سعودی عرب کی مذہبی مرکزیت و تیل پر مبنی طاقت کو یکجا کر دیتا ہے۔
اس معاہدے کے کئی پہلو ہیں۔ ایک جانب یہ واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب حرمین شریفین کے دفاع کا باضابطہ ضامن بن گیا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کو یہ یقین دہانی حاصل ہوگئی ہے کہ کسی بھی خطرے کی صورت میں پاکستان کی فوجی صلاحیتیں اس کے ساتھ کھڑی ہوں گی۔ خطے میں ایران، بھارت اور اسرائیل کے بڑھتے اثر و رسوخ کے تناظر میں یہ اتحاد طاقت کا ایک نیا توازن پیدا کرے گا۔
حالیہ برسوں میں بھارت نے خطے میں اپنی جارحانہ پالیسی کو ’’نیو نارمل‘‘ کا نام دے کر پاکستان پر پری ایمپٹو حملوں کی حکمتِ عملی اپنائی۔ اسرائیل کی براہِ راست شمولیت نے اس خطرے کو کئی گنا بڑھا دیا۔ مگر پاکستان نے نہ صرف ان حملوں کو ناکام بنایا بلکہ اپنی ایٹمی صلاحیت کو بروئے کار لا کر بھارت کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نئے دفاعی معاہدے کے بعد اب یہ پیغام اور بھی طاقتور ہو گیا ہے کہ پاکستان اکیلا نہیں بلکہ سعودی عرب بھی اس کا ساتھ دے گا۔
عالمی سطح پر بھی یہ معاہدہ ایک گہرا اثر ڈالے گا۔ امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے یہ ڈیل اس بات کا اشارہ ہے کہ مسلم دنیا اپنی دفاعی حکمتِ عملی میں زیادہ خودمختار ہو رہی ہے۔ چین اور روس جیسے ممالک کے لیے بھی یہ معاہدہ دلچسپی کا باعث ہوگا کیونکہ یہ خطے میں طاقت کے نئے بلاک کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے لیے یہ خبر یقیناً پریشانی کا باعث ہے کیونکہ اب ان کی یکطرفہ حکمتِ عملیوں کو مشترکہ دفاعی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس معاہدے میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کردار بھی خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ دفاعی سفارت کاری اور عسکری تیاری میں ان کا تجربہ اور قیادت اس ڈیل کے پس منظر میں فیصلہ کن عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان اندرونی سطح پر سیاسی کشمکش اور معاشی مشکلات کا شکار ہے، مگر اس کے باوجود عالمی سطح پر ایک ذمہ دار اور مضبوط ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کا یہ معاہدہ صرف دو ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔ یہ امت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر اتحاد قائم ہو تو کوئی بھی طاقت ان کو دبانے کی جرات نہیں کر سکتی۔ یہ معاہدہ دراصل ماضی کے او آئی سی اجلاس کے خواب کو ایک عملی شکل دیتا ہے اور یہ یقین دلاتا ہے کہ مسلم دنیا اب محض بیانات پر نہیں بلکہ عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان–سعودیہ دفاعی معاہدہ نہ صرف خطے میں امن اور استحکام کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے بلکہ یہ مستقبل کے عالمی توازنِ طاقت کو بھی متاثر کرے گا۔ آنے والے برسوں میں اس ڈیل کے اثرات اور اس کے عملی پہلو زیادہ نمایاں ہوں گے اور دنیا دیکھے گی کہ برادر ممالک کس طرح ایک دوسرے کے لیے ڈھال بنتے ہیں۔
دیکھیں: بھارت نے پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی دفاعی معاہدے پر ردعمل جاری کر دیا