اقوام متحدہ کے ایک خصوصی ماہر کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی اور مبینہ طور پر غیر انسانی قید کی شرائط پر تشویش کے اظہار کے بعد پاکستان میں اس بیان پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے، جہاں قانونی و سیاسی ماہرین نے اسے پاکستان کے اندرونی عدالتی اور انتظامی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے تشدد، ایلس جِل ایڈورڈز نے 12 دسمبر 2025 کو جاری بیان میں کہا کہ عمران خان کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں طویل مدت تک تنہائی میں رکھے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق تشدد یا غیر انسانی سلوک کے زمرے میں آ سکتی ہیں۔ ان کے مطابق عمران خان کو مبینہ طور پر روزانہ 23 گھنٹے ایک سیل میں بند رکھا جاتا ہے، محدود بیرونی رابطے کی اجازت ہے اور سیل میں مستقل کیمرہ نگرانی کی جاتی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ عمران خان کو بیرونی سرگرمی، دیگر قیدیوں سے میل جول اور اجتماعی نماز کی اجازت نہیں دی جاتی، جبکہ وکلا اور اہلِ خانہ سے ملاقاتیں بھی اکثر قبل از وقت ختم کر دی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہر نے دعویٰ کیا کہ سیل میں مناسب روشنی، ہوا اور درجہ حرارت کا انتظام نہیں، جس کے باعث عمران خان کی صحت متاثر ہوئی ہے۔ ایلس جِل ایڈورڈز نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ عمران خان کی تنہائی ختم کی جائے، انہیں مناسب طبی سہولتیں فراہم کی جائیں اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق قید کی شرائط کو یقینی بنایا جائے۔
اقوام متحدہ کے مطابق خصوصی نمائندے نے یہ معاملہ پاکستانی حکومت کے سامنے اٹھا دیا ہے اور آئندہ بھی صورتحال پر نظر رکھی جائے گی۔
#Pakistan: Imran Khans solitary confinement and inhumane detention conditions must end – UN expert. Prolonged or indefinite solitary confinement is prohibited under int'l human rights law – and when it extends longer than 15 days, it's a form of #torture. https://t.co/m2Re8Yhyc0 pic.twitter.com/LcQK0BJel5
— UN Special Procedures (@UN_SPExperts) December 12, 2025
تاہم پاکستان میں قانونی ماہرین، سابق سفارتکاروں اور حکومتی حلقوں نے اقوام متحدہ کے اس بیان کو یکطرفہ، سیاسی اور حقائق سے لاعلم قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان پاکستان کی عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات میں سزا یافتہ یا ملزم ہیں، اور ان کی قید آئین و قانون کے تحت عدالتی احکامات کے مطابق ہے، نہ کہ کسی انتظامی یا سیاسی فیصلے کے تحت۔
قانونی ماہرین کے مطابق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کا بیان پاکستان کے عدالتی نظام، جیل قوانین اور خودمختاری کو نظرانداز کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو وہ تمام سہولتیں حاصل ہیں جو جیل قوانین کے تحت کسی بھی سابق وزیراعظم یا بی کلاس قیدی کو دی جاتی ہیں، جن میں طبی سہولت، عدالتی رسائی اور وکلا سے ملاقات شامل ہے۔
سابق سفارتکاروں نے بھی اس بیان پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اکثر تصدیق شدہ زمینی حقائق کے بغیر یکطرفہ رپورٹس پر انحصار کرتے ہیں، جو ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ان کے مطابق اگر ہر ملک کے عدالتی فیصلوں کو انسانی حقوق کے نام پر سیاسی رنگ دیا جائے تو عالمی نظام انصاف کمزور ہو جائے گا۔
پاکستانی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ عمران خان کے مقدمات سیاسی نہیں بلکہ مالی بدعنوانی، ریاستی رازوں اور دیگر قانونی معاملات سے متعلق ہیں، جن کا فیصلہ صرف پاکستانی عدالتوں کو کرنا ہے۔ ان کے مطابق اقوام متحدہ یا کسی بھی بین الاقوامی ادارے کو پاکستان کے اندرونی عدالتی معاملات میں مداخلت کا کوئی جواز حاصل نہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان انسانی حقوق کے عالمی معیارات کا پابند ہے، تاہم کسی مخصوص فرد کے معاملے کو بنیاد بنا کر عدالتی خودمختاری پر سوال اٹھانا ناقابلِ قبول ہے۔ ماہرین نے زور دیا کہ عالمی اداروں کو انسانی حقوق کے نام پر سیاسی بیانیے اپنانے کے بجائے غیر جانب دارانہ اور متوازن رویہ اختیار کرنا چاہیے۔