پاکستان کی جانب سے داعش خراسان کے خلاف جاری انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیاں طالبان حکومت کے اُن الزامات کے برعکس حقائق سامنے لاتی ہیں جن میں افغانستان میں ہونے والی دہشت گرد سرگرمیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ تصدیق شدہ گرفتاریاں، دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف کاروائیاں اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹس اس امر کی واضح نشاندہی کرتی ہیں کہ پاکستان داعش خراسان کے خلاف ایک فعال اور مؤثر انسدادِ دہشت گردی محاذ کے طور پر کام کر رہا ہے۔
طالبان کے الزامات حقائق کے برعکس
بی بی سی پشتو کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کے قریب داعش کے ایک مبینہ رکن کی گرفتاری کے بعد یہ دعویٰ کیا کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے مراکز پاکستان میں قائم ہیں۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ داعش کے ٹھکانے ڈیورنڈ لائن کے اُس پار موجود ہیں اور افغانستان میں ہونے والے بعض دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان سے کی گئی۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دعویٰ زمینی حقائق اور عالمی شواہد سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر داعش خراسان واقعی پاکستان میں بلا روک ٹوک سرگرم ہوتی، تو اس کے اعلیٰ میڈیا سربراہان، بیرونی کارروائیوں کے منصوبہ ساز اور کلیدی سہولت کار پاکستان میں گرفتار نہ ہو رہے ہوتے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کی جانب سے کی گئی گرفتاریوں کے بعد داعش خراسان کا پروپیگنڈا اور ابلاغی ڈھانچہ نمایاں طور پر کمزور ہوا ہے، جسے اس بیانیے کی نفی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان اس تنظیم کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے۔
پاکستانی انٹیلی جنس کی جانب سے داعش خراسان کے مرکزی پروپیگنڈسٹ اور الاعظیم فاؤنڈیشن کے بانی سلطان عزیز اعزام کی گرفتاری کو ماہرین ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں، جو طالبان ترجمان کے مؤقف کی براہِ راست تردید کرتی ہے۔ ان کے مطابق ایسی گرفتاریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان داعش خراسان کے خلاف محض دعوؤں تک محدود نہیں بلکہ عملی سطح پر کارروائیاں کر رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹس
اقوامِ متحدہ کی رپورٹس بھی طالبان حکومت کے اس مؤقف کی تائید نہیں کرتیں کہ پاکستان داعش کا مرکز ہے۔ ان رپورٹس میں اس بات کا واضح ذکر موجود ہے کہ پاکستانی کارروائیوں نے داعش خراسان کے کمانڈ اینڈ کنٹرول ڈھانچے، بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی اور بھرتی کے نیٹ ورکس کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 2024 اور 2025 کے دوران پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے داعش خراسان کی قیادت کے متعدد اہم عناصر کو گرفتار یا غیر مؤثر بنایا، جن کی تعداد طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان میں کی گئی کارروائیوں کے سرکاری دعوؤں سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ مبصرین کے نزدیک یہ فرق افغانستان میں انسدادِ دہشت گردی کے نفاذ اور عمل داری پر سنجیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ داعش خراسان اگست 2021 کے بعد پاکستان سے نہیں ابھری بلکہ سابق افغان سیکیورٹی ڈھانچے کے انہدام کے بعد افغانستان کے مشرقی صوبوں میں پھیلی، جہاں سلامتی کے نظام میں واضح خلا پیدا ہوا۔ یہ حقیقت مختلف عالمی رپورٹس میں بارہا اجاگر کی جا چکی ہے۔
اسی پس منظر میں ترکی کی خفیہ ایجنسی کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کے قریب داعش خراسان کے مبینہ رکن مہمّت گورن کی گرفتاری کو بھی اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ ترکی کے سرکاری ذرائع کے مطابق گرفتار شخص داعش خراسان سے منسلک تھا، جس سے اس تنظیم کے سرحدی نیٹ ورکس کی نوعیت مزید واضح ہوتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر پاکستان داعش خراسان کی سرپرستی کر رہا ہوتا تو اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں محمد شریف اللہ جیسے افراد کی گرفتاری میں قابلِ عمل معلومات فراہم نہ کرتیں، جو کابل ایئرپورٹ حملے سے منسلک تھا، اور نہ ہی ایسے تعاون کو عالمی عسکری قیادت کی جانب سے کھلے عام تسلیم کیا جاتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ الزام تراشی اور ذمہ داری منتقل کرنے کی روش داعش خراسان جیسے خطرناک نیٹ ورک کے خاتمے کا متبادل نہیں بن سکتی۔ علاقائی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ زمینی حقائق کو تسلیم کیا جائے اور اس امر کا واضح تعین کیا جائے کہ داعش خراسان کہاں سرگرم ہے، کہاں سے بھرتی کرتی ہے اور کہاں پناہ لیتی ہے۔ دستیاب شواہد کے مطابق اس تنظیم کی سرگرمیوں کا بڑا حصہ اب بھی افغانستان کے اندر موجود ہے۔
دیکھیں: افغان طالبان کی حکومت میں خوفزدہ شہری اور بڑھتے ہوئے جرائم