پاکستان نے افغان طالبان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تحریکِ طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی کے شدت پسند و دہشت گرد عناصر کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتہ کے روز اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغان حکومت نے ان خاندانوں کے لیے زمین اور رہائشی سہولیات فراہم کی ہیں جو افغانستان منتقل ہوئے اور یہ کہ “کسی کو بھی اپنے حقوق سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ بے گھر افراد کی دیکھ بھال کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشنز اور کمیٹیاں اب بھی فعال ہیں اور افغانستان مزید مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کے بقول وہ قبائلی خاندان جو فی الحال افغانستان میں مقیم ہیں طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل ہی وہاں آباد ہو چکے تھے۔
تاہم پاکستانی حکام نے ان دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذبیح اللہ مجاہد کے بیان کے برعکس حالیہ برسوں میں پاکستان سے افغانستان جانے والے عام شہری نہیں بلکہ تحریکِ طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی سے وابستہ شدت پسند ہیں۔
استنبول مذاکرات کے دوران دیے گئے اسی نوعیت کے بیانات پر پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان مؤقف بے بنیاد ہے اور سوال اٹھایا کہ آخر یہ کیسے پناہ گزینوں کی واپسی ہے جس میں لوگ بھاری اسلحے سے لیس ہو کر واپس جا رہے ہیں؟
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ مبینہ “پناہ گزین” عام بسوں یا گاڑیوں میں نہیں بلکہ پہاڑی درّوں اور دشوار گزار راستوں سے خفیہ طور پر داخل ہوتے ہیں جو طالبان حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویّے کو ظاہر کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ذبیح اللہ مجاہد کے یہ بیان بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے تاکہ مسلح دہشت گردوں کو عام مہاجرین کے طور پر پیش کیا جائے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ریاستِ پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے کمانڈروں کو گرفتار کیا جائے تاکہ سرحد پار حملوں کو روکا جا سکے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کا اپنی سرزمین پر سرگرم شدت پسند نیٹ ورکس کی ذمہ داری لینے سے انکار ہی پاک۔ افغان کشیدگی میں اضافہ کر رہا ہے۔
پاکستانی حکام کا اصرار ہے کہ طالبان کو غلط بیانیوں کے بجائے عملی اقدامات کرنے چاہئیں اور ان شدت پسندوں کو پاکستان کے حوالے کرنا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے خطرے کو کم کیا جا سکے اور علاقائی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔