پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری تجارتی تعطل کو بعض مغربی میڈیا بالخصوص نیویارک ٹائمز میں ایسے پیش کیا جا رہا ہے جیسے پاکستان نے عام افغان شہریوں کو ’’سزا‘‘ دینے کے لیے اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہوں۔
لیکن یہ بیانیہ اس بنیادی اور سنگین حقیقت کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیتا ہے کہ پاکستان کے یہ اقدامات سکیورٹی ناگزیر ضروریات کے تحت اٹھائے گئے ہیں—نہ کہ کسی قسم کی اقتصادی جارحیت کے تحت۔
سکیورٹی، تجارت پر مقدم – وہ پہلو جسے نیو یارک ٹائمز نے نظرانداز کیا
نیویارک ٹائمز نے بارڈر پر پھنسے ٹرکوں، بند دوکانوں اور پریشان حال افغان تاجروں کی تصویریں تو نمایاں کیں، مگر یہ سوال کمزور پڑ گیا کہ پاکستان نے آخر بارڈر کنٹرول سخت کیوں کیے؟
ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر گروہ بلاخوف و خطر افغان سرزمین کو حملوں، پناہ اور دوبارہ منظم ہونے کے مراکز کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
صرف گزشتہ دو برس میں سینکڑوں پاکستانی اہلکار ان حملوں میں شہید ہوئے حملہ آور افغانستان سے آتے اور وہیں واپس چلے جاتے ہیں۔
جب کابل ان گروہوں کی موجودگی سے بھی انکار کرے تو پاکستان کے پاس بارڈر کھلا رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
کوئی ذمہ دار ریاست اس صورتِ حال میں تجارتی راستوں کو اسی طرح کھلا نہیں چھوڑ سکتی جب انہی راستوں کو دہشت گرد رسد، نقل و حرکت اور حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہوں۔
پاکستان نے انسانی امداد نہیں روکی
سخت سکیورٹی صورتحال کے باوجود پاکستان نے انسانی بنیادوں پر تعاون جاری رکھا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی پاکستان نے ڈبلیو ایف پی، یونیسیف کے امدادی سامان کو طورخم اور چمن بارڈر سے گزرنے کی اجازت دی—جس میں خوراک، ادویات اور موسمِ سرما کی اشیاء شامل تھیں۔
یہ وہ تصویر ہے جو جذباتی بیانیوں میں جگہ نہیں پاتی۔
پاکستان کی دہائیوں پر محیط معاونت کو نظرانداز کرنا ناانصافی ہے
افغان حکام کی جانب سے یہ دعویٰ کہ پاکستان ’’کم معیار‘‘ یا ’’خطرناک‘‘ ادویات بھیجتا ہے، عملی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔
افغان خاندان دہائیوں سے پیناڈول، بروف، فلیجل، آگمینٹن، کالپول جیسی پاکستانی ادویات استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں—کابل ہو یا پشاور، یہ یکساں طور پر معتبر سمجھی جاتی ہیں۔
لاکھوں افغان مریض برسوں سے پمز، پولی کلینک، شفا انٹرنیشنل اور دیگر ہسپتالوں میں مفت یا انتہائی کم قیمت پر علاج کرواتے رہے۔
معروف ماہرین مثلاً ڈاکٹر فرید اللہ خان زیمری نے ہزاروں افغان مریضوں کا علاج کیا کسی سرحد یا پاسپورٹ کی پرواہ کیے بغیر۔
پاکستان کی 250 ملین آبادی اور 400 ارب ڈالر کی معیشت کا کوئی متبادل نہیں
طالبان حکومت ایران، وسطی ایشیا یا دیگر راستوں کو متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ، تجارتی رسائی اور لاجسٹک سرمایہ کاری خطے میں کہیں اور نہیں ملتی۔
افغانستان جس معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے، وہ پاکستان کی پالیسی نہیں طالبان کی اپنی سکیورٹی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جس نے پورے خطے کی استحکام کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
اصل مسئلہ پاکستان کی ’’معاشی سختی‘‘ نہیں بلکہ افغانستان میں موجود وہ دہشت گرد گروہ ہیں جو پاکستان، چین، وسطی ایشیا اور پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔
تجارت ہمیشہ سکیورٹی کے بعد آتی ہے۔
پاکستان کے اقدامات سیاسی نہیں بقا کی جنگ ہیں۔