نیویارک ٹائمز نے بارڈر پر پھنسے ٹرکوں، بند دوکانوں اور پریشان حال افغان تاجروں کی تصویریں تو نمایاں کیں، مگر یہ سوال کمزور پڑ گیا کہ پاکستان نے آخر بارڈر کنٹرول سخت کیوں کیے؟

December 12, 2025

اجلاس میں پاکستان، چین، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ افغانستان کے مستقبل پر اب خطے کے ممالک براہ راست ذمہ داری سنبھال رہے ہیں اور غیر مغربی دنیا ایک نئی سفارتی حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے۔

December 12, 2025

حالیہ عرصے میں ای ٹی آئی ایم/ای ٹی ایل ایف سے وابستہ شدت پسندوں کے ایک ڈرون حملے میں تاجکستان میں چینی ورکرز کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد بیجنگ نے علاقائی سطح پر ’’ٹرانس نیشنل دہشت گرد نیٹ ورکس‘‘ کی موجودگی اور ان کے بڑھتے خطرے کو غیر معمولی سنجیدگی سے اٹھایا ہے۔

December 12, 2025

عادل راجہ  نے اپنے جرم کو تسلیم کرنے کی بجائے ہٹ دھرمی دکھائی اور زیریں عدالت کے حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا، ہائی کورٹ نے عادل راجہ کی سزائیں بڑھا دیں، جرمانہ میں اضافہ کر دیا اور اسے معافی نامے اپنے تمام سوشل میڈیا  پروفائلز پر مسلسل 28 دن تک نمایاں آویزاں رکھنے کا حکم دیا۔

December 12, 2025

ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ ناروے کے سفیر کی عدالت میں غیر معمولی شرکت بین الاقوامی سفارتی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے اور پاکستان نے ان سے سختی سے کہا کہ آئندہ ایسے اقدامات نہ اٹھائیں۔

December 11, 2025

افغانستان کے حوالے سے ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان کو افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی پر مستقل تشویش ہے اور ماضی کے وعدے پورے نہ ہونے کے باعث پاکستان نے تحریری ضمانتیں مانگی ہیں۔ انہوں نے حالیہ افغان علما کے “سرحد پار عسکری کارروائیوں کے خلاف فتوے” کو مثبت مگر ناکافی قرار دیا۔

December 11, 2025

نیو یارک ٹائمز کے آرٹیکل میں پاکستان کے تجارتی اور سکیورٹی اقدامات کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے؛ ماہرین

نیویارک ٹائمز نے بارڈر پر پھنسے ٹرکوں، بند دوکانوں اور پریشان حال افغان تاجروں کی تصویریں تو نمایاں کیں، مگر یہ سوال کمزور پڑ گیا کہ پاکستان نے آخر بارڈر کنٹرول سخت کیوں کیے؟
نیو یارک ٹائمز کے آرٹیکل میں پاکستان کے سکیورٹی اقدامات کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے؛ ماہرین

ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر گروہ بلاخوف و خطر افغان سرزمین کو حملوں، پناہ اور دوبارہ منظم ہونے کے مراکز کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

December 12, 2025

پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری تجارتی تعطل کو بعض مغربی میڈیا بالخصوص نیویارک ٹائمز میں ایسے پیش کیا جا رہا ہے جیسے پاکستان نے عام افغان شہریوں کو ’’سزا‘‘ دینے کے لیے اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہوں۔


لیکن یہ بیانیہ اس بنیادی اور سنگین حقیقت کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیتا ہے کہ پاکستان کے یہ اقدامات سکیورٹی ناگزیر ضروریات کے تحت اٹھائے گئے ہیں—نہ کہ کسی قسم کی اقتصادی جارحیت کے تحت۔

سکیورٹی، تجارت پر مقدم – وہ پہلو جسے نیو یارک ٹائمز نے نظرانداز کیا

نیویارک ٹائمز نے بارڈر پر پھنسے ٹرکوں، بند دوکانوں اور پریشان حال افغان تاجروں کی تصویریں تو نمایاں کیں، مگر یہ سوال کمزور پڑ گیا کہ پاکستان نے آخر بارڈر کنٹرول سخت کیوں کیے؟

ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر گروہ بلاخوف و خطر افغان سرزمین کو حملوں، پناہ اور دوبارہ منظم ہونے کے مراکز کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔


صرف گزشتہ دو برس میں سینکڑوں پاکستانی اہلکار ان حملوں میں شہید ہوئے حملہ آور افغانستان سے آتے اور وہیں واپس چلے جاتے ہیں۔

جب کابل ان گروہوں کی موجودگی سے بھی انکار کرے تو پاکستان کے پاس بارڈر کھلا رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔


کوئی ذمہ دار ریاست اس صورتِ حال میں تجارتی راستوں کو اسی طرح کھلا نہیں چھوڑ سکتی جب انہی راستوں کو دہشت گرد رسد، نقل و حرکت اور حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہوں۔

پاکستان نے انسانی امداد نہیں روکی

سخت سکیورٹی صورتحال کے باوجود پاکستان نے انسانی بنیادوں پر تعاون جاری رکھا ہے۔


گزشتہ ہفتے ہی پاکستان نے ڈبلیو ایف پی، یونیسیف کے امدادی سامان کو طورخم اور چمن بارڈر سے گزرنے کی اجازت دی—جس میں خوراک، ادویات اور موسمِ سرما کی اشیاء شامل تھیں۔

یہ وہ تصویر ہے جو جذباتی بیانیوں میں جگہ نہیں پاتی۔

پاکستان کی دہائیوں پر محیط معاونت کو نظرانداز کرنا ناانصافی ہے

افغان حکام کی جانب سے یہ دعویٰ کہ پاکستان ’’کم معیار‘‘ یا ’’خطرناک‘‘ ادویات بھیجتا ہے، عملی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔

افغان خاندان دہائیوں سے پیناڈول، بروف، فلیجل، آگمینٹن، کالپول جیسی پاکستانی ادویات استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں—کابل ہو یا پشاور، یہ یکساں طور پر معتبر سمجھی جاتی ہیں۔

لاکھوں افغان مریض برسوں سے پمز، پولی کلینک، شفا انٹرنیشنل اور دیگر ہسپتالوں میں مفت یا انتہائی کم قیمت پر علاج کرواتے رہے۔


معروف ماہرین مثلاً ڈاکٹر فرید اللہ خان زیمری نے ہزاروں افغان مریضوں کا علاج کیا کسی سرحد یا پاسپورٹ کی پرواہ کیے بغیر۔

پاکستان کی 250 ملین آبادی اور 400 ارب ڈالر کی معیشت کا کوئی متبادل نہیں

طالبان حکومت ایران، وسطی ایشیا یا دیگر راستوں کو متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ، تجارتی رسائی اور لاجسٹک سرمایہ کاری خطے میں کہیں اور نہیں ملتی۔

افغانستان جس معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے، وہ پاکستان کی پالیسی نہیں طالبان کی اپنی سکیورٹی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جس نے پورے خطے کی استحکام کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔

اصل مسئلہ پاکستان کی ’’معاشی سختی‘‘ نہیں بلکہ افغانستان میں موجود وہ دہشت گرد گروہ ہیں جو پاکستان، چین، وسطی ایشیا اور پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

تجارت ہمیشہ سکیورٹی کے بعد آتی ہے۔
پاکستان کے اقدامات سیاسی نہیں بقا کی جنگ ہیں۔

متعلقہ مضامین

اجلاس میں پاکستان، چین، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ افغانستان کے مستقبل پر اب خطے کے ممالک براہ راست ذمہ داری سنبھال رہے ہیں اور غیر مغربی دنیا ایک نئی سفارتی حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے۔

December 12, 2025

حالیہ عرصے میں ای ٹی آئی ایم/ای ٹی ایل ایف سے وابستہ شدت پسندوں کے ایک ڈرون حملے میں تاجکستان میں چینی ورکرز کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد بیجنگ نے علاقائی سطح پر ’’ٹرانس نیشنل دہشت گرد نیٹ ورکس‘‘ کی موجودگی اور ان کے بڑھتے خطرے کو غیر معمولی سنجیدگی سے اٹھایا ہے۔

December 12, 2025

عادل راجہ  نے اپنے جرم کو تسلیم کرنے کی بجائے ہٹ دھرمی دکھائی اور زیریں عدالت کے حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا، ہائی کورٹ نے عادل راجہ کی سزائیں بڑھا دیں، جرمانہ میں اضافہ کر دیا اور اسے معافی نامے اپنے تمام سوشل میڈیا  پروفائلز پر مسلسل 28 دن تک نمایاں آویزاں رکھنے کا حکم دیا۔

December 12, 2025

ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ ناروے کے سفیر کی عدالت میں غیر معمولی شرکت بین الاقوامی سفارتی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے اور پاکستان نے ان سے سختی سے کہا کہ آئندہ ایسے اقدامات نہ اٹھائیں۔

December 11, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *