آج سے 24 برس قبل شروع ہونے والی جنگ نے پاکستان کے وجود پر گہرے زخم اور ناقابلِ تلافی نقصانات چھوڑے ہیں۔ دو دہائیوں کے گزرنے کے باوجود پاکستان نہ صرف لاکھوں شہریوں کی جانیں گنوا چکا ہے بلکہ پاکستان کو اب بھی افغانستان سے دہشت گردی کا سامنا رہتا ہے۔ یہ جنگ جو کبھی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کہلاتی تھی آج پاکستان کے لیے ایک قومی المیہ اور چیلنج بن چکی ہے جس کے ملکی معاشی، سماجی، سلامتی اور سفارتی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
ماضی کے قاتل اور آج مہمان
اس سلسلے میں اہم نام تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر اکرام اللہ محسود کی صورت میں سامنے آیا ہے، جو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کا مرکزی ملزم قرار دیا جا چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق کمانڈر اکرام اللہ محسود اس وقت افغانستان کے صوبہ خوست میں افغان حکومت کی سرپرستی میں مقیم ہے۔
ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی کتاب “انقلابِ محسود: جنوبی وزیرستان” میں اس واقعے کی مکمل تفصیل درج ہے۔ جس کے مطابق 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی کے المناک واقعے کے لیے دو خودکش بمبار بلال اور اکرام اللہ کو مقرر کیا گیا تھا۔ اس حملے کے بعد اکرام اللہ افغانستان فرار ہو گیاتھا جہاں وہ آج موجود ہے۔

بے نظیر بھٹو کے قتل میں نامزد ملزم کمانڈر اکرام اللہ محسود
یہ انکشاف ایک بڑے سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا دہشت گرد گروہ واقعی اپنی سرگرمیاں چھوڑ چکے ہیں یا پھر نئے ناموں اور نئی پناہ گاہوں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں؟
دہشت گردی سے متاثرہ ملک
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 83 ہزار سے زائد قیمتی جانیں گنوائی ہیں اور 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان اٹھایا ہے۔ پارلیمانی سیکریٹری عالیہ حمزہ ملک کے مطابق پاکستان کو معاشی طور پر تقریباً 152 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
سابق وزیرِاعظم و بانیٔ تحریکِ انصاف عمران خان نے ان نقصانات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ 70 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے، سیاحت اور سرمایہ کاری ختم ہو گئی جبکہ امریکی امداد مشکل سے 20 ارب ڈالر تھی۔
جنگ کے گہرے اثرات
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے چیئرمین امتیاز گل کے مطابق پاکستان پر جنگ کے اثرات صرف مالی حد تک محدود نہیں تھے بلکہ اس جنگ نے ہمارے سماجی و سفارتکاری کو بھی کمزور کیا۔ دہشت گردی کی وجہ سے سرمایہ کار بھی پاکستان سے دور رہے۔
معاشی ماہر ساجد امین جاوید کہتے ہیں کہ گزشتہ 20 برسوں میں پاکستان نے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 3 فیصد سالانہ کھویا۔ بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور انسانی سرمائے کے زیاں نے ترقی کی رفتار روک دی۔
نئی پناہ گاہیں اور چیلنجز
دفاعی ماہرین کے مطابق افغانستان میں ٹی ٹی پی کے دوبارہ منظم ہونے اور اکرام اللہ محسود جیسے افراد کی آزادانہ نقل و حرکت اس بات کا غمازی کرتی ہے کہ جنگ کا بظاہر اختتام درحقیقت ایک خفیہ تسلسل ہے۔ ایک ماہر سیکورٹی تجزیہ کار کے مطابق جب تک افغان حکومت اپنی سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کی موجودگی تسلیم نہیں کرتی تب تک دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گرد گروہ ختم نہیں ہو سکتے۔
انصاف کی تلاش
پاکستان کی جنگ اب فقط دہشت گردوں کے خلاف نہیں بلکہ اُن نظریات اور افراد کے خلاف ہے جو دہشت گردی کو جہاد کا نام دیتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا لہو انصاف کا متقاضی ہے۔ وہ انصاف جو اب بھی افغانستان کے دارالحکومت کابل کی گلیوں اور خوست کی پناہ گاہوں تک پہنچنا باقی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد ایک رسمی جنگ سے کہیں بڑھ کر ہے اور یہ امن استحکام کے مستقبل کے لیے ایک قوم کی عزم کی داستان ہے۔