اسلامی امارت کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل جاری ہے۔ وزیرِ مہاجرین و نائب وزیرِ اعظم، مولوی عبدالکبیر نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہمسایہ اور دیگر ممالک سے 68 لاکھ افغان مہاجرین جبری اور رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس آ چکے ہیں۔
یہ بات انہوں نے مہاجرین کے مسئلے کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے تیار کی جانے والی قومی منصوبہ بندی کے مسودے کو حتمی شکل دینے کے سلسلے میں منعقدہ ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں مختلف وزارتوں، سرکاری اداروں اور متعلقہ محکموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
مولوی عبدالکبیر کا کہنا تھا کہ مہاجرین کی بڑے پیمانے پر واپسی ایک سنگین انسانی، معاشی اور انتظامی چیلنج ہے، جس کے لیے مربوط حکمتِ عملی اور بین الادارہ جاتی تعاون ناگزیر ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ واپس آنے والے مہاجرین کو رہائش، روزگار، صحت، تعلیم اور بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ترجیح ہے، اور اس مقصد کے لیے ایک جامع فریم ورک تیار کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ منصوبہ بندی صرف ہنگامی اقدامات تک محدود نہیں ہوگی بلکہ اس کا مقصد مہاجرین کی باعزت آبادکاری، معاشی انضمام اور سماجی بحالی کو یقینی بنانا ہے۔ ان کے مطابق، مختلف وزارتوں اور اداروں کے درمیان ذمہ داریوں کی واضح تقسیم اور وسائل کے مؤثر استعمال کے بغیر اس چیلنج سے نمٹنا ممکن نہیں۔
اجلاس میں شریک حکام نے اس امر پر اتفاق کیا کہ مہاجرین کی وطن واپسی کے اثرات نہ صرف شہری مراکز بلکہ دیہی علاقوں پر بھی پڑ رہے ہیں، جس کے لیے ترقیاتی منصوبوں، روزگار کے مواقع اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری پر خصوصی توجہ دینا ضروری ہے۔
وزیرِ مہاجرین نے عالمی اداروں اور انسانی امدادی تنظیموں سے بھی اپیل کی کہ وہ افغانستان میں واپس آنے والے مہاجرین کی مدد کے لیے تعاون جاری رکھیں، تاکہ اس عمل کو پائیدار اور انسانی وقار کے مطابق بنایا جا سکے۔