ہندوکش کی فضاؤں سے وابستہ افغان عوام کی ہجرت اورمختلف ممالک میں پناہ گزینی کی کہانی آج ایک نئے موڑ پر ہے۔ پاکستان سے 211 افغان باشندوں کی ملک بدری پر جرمنی نے تشویش کا اظہار کیا ہے مگر اسی جرمنی نے 2025 کے انتخابات کے بعد اپنا “انسانی ہمدردی پروگرام” معطل کر کے ہزاروں افغانوں کو پاکستان اور افغانستان میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔
وعدے اور انحراف
جرمنی کی سابقہ حکومت نے نیٹو اور امریکی آپریشنز سے وابستہ 2000 افغانوں کی دوبارہ آبادکاری کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن نئی قیادت نے نہ صرف اس وعدے کو نظرانداز کیا بلکہ انسانی ہمدردی پروگرام کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا۔ اس اقدام کو ناقدین ایک “غیراعلانیہ پابندی” قرار دے رہے ہیں۔
دوہرا معیار اور حقیقت
پاکستان پر تنقید کے ساتھ ساتھ جرمنی اور یورپ کے کئی ممالک خود افغانوں کو معمولی امیگریشن خلاف ورزیوں پر واپس افغانستان بھیج چکے ہیں جبکہ پاکستان دہشت گردی کے سنگین خطرات کے باوجود لاکھوں افغانوں کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ یہ طرزِ عمل اس تضاد کو واضح کرتا ہے جسے پاکستان نے کئی بار عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے: مغرب بیانات اور وعدے تو کرتا ہے، مگر عملی اقدامات اکثر ان کے برعکس ہوتے ہیں۔
پاکستان کا بوجھ اور عالمی ذمہ داریاں
گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ صرف حالیہ برسوں میں تین بار ملک بدری کی ڈیڈ لائنز عالمی برادری کی درخواست پر بڑھائی گئیں۔ لیکن بین الاقوامی تعاون، خاص طور پر مغربی دنیا سے، الفاظ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ پاکستان سیکیورٹی خدشات اور معاشی دباؤ کے درمیان پھنسا ہوا ہے، جبکہ مغرب بوجھ بانٹنے کے بجائے دباؤ ڈالنے میں مصروف ہے۔
انسانی ہمدردی کے دعوؤں کا امتحان
یہ معاملہ محض پناہ گزینوں کا نہیں بلکہ عالمی اخلاقیات اور ذمہ داریوں کا امتحان ہے۔ اگر یورپ اور بالخصوص جرمنی واقعی انسانی ہمدردی کے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے اپنے کیے گئے وعدے پورے کرنے ہوں گے۔ پاکستان کے اقدامات پر تنقید تب ہی بامعنی ہو سکتی ہے جب مغرب خود اپنے بیانات اور پالیسیوں میں یکسانیت اور شفافیت لائے۔
افغان مہاجرین ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ پناہ گزین صرف اعداد و شمار اور سیاست کا سامان نہیں نہیں بلکہ اپنے وطن کے دور بس رہے انسان ہیں، جن کے خواب، خاندان اور مستقبل ہیں۔ پاکستان نے دہائیوں تک ان کے لیے دروازے کھلے رکھے، لیکن عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ بھی اپنے وعدے نبھائے۔ ورنہ عالمی نظام، جس کی بنیاد انصاف اور یکجہتی پر ہونی چاہیے، محض بیانات کا پلندہ بن کر رہ جائے گا۔
دیکھیں: جرمنی کا افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے دوہرا معیار بے نقاب ہوگیا