27ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے کا قیام پاکستان کے اعلیٰ دفاعی ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ترمیم کے مطابق آرمی چیف ہی بیک وقت CDF ہوگا، اور اس عہدے کو آئینی تحفظ بھی دے دیا گیا ہے۔ حامی حلقے اسے “جوائنٹنس” یعنی تینوں افواج کے درمیان بہتر ہم آہنگی کی جانب قدم قرار دیتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی ایک عملی اور پیشہ ورانہ اصلاح ہے یا محض ایک سیاسی و ادارہ جاتی بندوبست؟
مصنف کے مطابق جوائنٹنس کوئی نیا تصور نہیں۔ پاکستان میں 1976 میں جوائنٹ اسٹاف ہیڈکوارٹرز اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا، مگر اسے دانستہ طور پر غیر مؤثر بنا دیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ عسکری طاقت کا ایک ہی ادارے میں ارتکاز اور سویلین بالادستی سے گریز تھا۔ جنرل احسان الحق جیسے سینئر فوجی افسران بھی اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ دفاعی پالیسی سازی پارلیمان اور سویلین قیادت کے ماتحت ہونی چاہیے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ جنگ صرف نقشوں، چارٹس اور اعلیٰ ہیڈکوارٹرز سے نہیں جیتی جاتی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ کا میدان غیر یقینی، افراتفری اور انسانی کمزوریوں سے بھرا ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، سیٹلائٹس اور ڈیجیٹل کمانڈ سسٹمز کے باوجود “جنگ کی دھند” ختم نہیں ہو سکی۔ روس-یوکرین جنگ اس کی تازہ مثال ہے، جہاں جدید نظام جام ہو گئے اور پرانے طریقے دوبارہ اختیار کرنا پڑے۔
مصنف جوائنٹنس کے تصور کو مکمل طور پر رد نہیں کرتے، مگر خبردار کرتے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ مرکزی کنٹرول، اضافی بیوروکریسی اور پیچیدہ کمانڈ اسٹرکچر جنگی مؤثریت کو کم کر سکتا ہے۔ امریکی فوج جیسی مثالوں میں بھی دیکھا گیا ہے کہ جوائنٹ ہیڈکوارٹرز اکثر مزید سست روی اور ادارہ جاتی ٹکراؤ کو جنم دیتے ہیں۔
اصل کامیاب ماڈل وہ ہے جسے جرمن فوج نے “آفٹراگس ٹیکٹک” کہا — یعنی کمانڈر نیت اور ہدف بتاتا ہے، مگر عملدرآمد کا اختیار فیلڈ کمانڈر کو دیتا ہے۔ سادگی، اعتماد، پیشہ ورانہ آزادی اور نچلی سطح پر فیصلہ سازی ہی جنگ میں کامیابی کی بنیاد بنتی ہے۔
مضمون کا حتمی مؤقف یہ ہے کہ اگر واقعی جوائنٹنس مقصود ہے تو کا عہدہ آرمی چیف سے الگ، خودمختار اور تینوں افواج میں باری باری ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر، جوائنٹنس کے نام پر طاقت کا مزید ارتکاز نہ صرف فوجی پیشہ ورانہ صلاحیت بلکہ سول-ملٹری توازن کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
آخر میں مصنف اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جنگیں کاغذی منصوبوں سے نہیں بلکہ میدان میں موجود کمانڈر کی بصیرت، سادہ احکامات اور لچکدار نظام سے جیتی جاتی ہیں۔ حقیقی اصلاح وہی ہے جو نظام کو دباؤ میں بھی مؤثر رکھ سکے، نہ کہ اسے مزید پیچیدہ بنا دے۔
نوٹ: یہ آرٹیکل سب سے پہلے ڈان نیوز پر شائع ہوا اور یہ تحریر اعجاز حیدر نے لکھی ہے۔ کاپی رائٹ حقوق دونوں محفوظ رکھتے ہیں۔