ایک سینئر برطانوی اسپیشل فورسز افسر نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں ایس اے ایس کے اہلکاروں کی جانب سے جنگی جرائم اور غیر قانونی قتل عام پر پردہ ڈالنے کا عمل برطانوی فوج کو ”گندے نالے“ میں بہا لے جائے گا اور بدنام آمرانہ حکومتوں کی سطح تک گرا دے گا۔ یہ انکشافات ایک آزاد جج کی سربراہی میں جاری انکوائری کے دوران سامنے آئے ہیں جس میں 2010 سے 2013 کے دوران افغانستان میں برطانوی اسپیشل فورسز کی کارروائیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
افسر، جنہیں این 1466 کے خفیہ شناختی نام سے مخاطب کیا گیا، نے بتایا کہ انہوں نے قانون شکنی کے بار بار واقعات اور معصوم شہریوں حتیٰ کہ ننھے بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کے خلاف آواز اٹھائی لیکن کمانڈ کی اعلیٰ سطح پر ان کی بات کو مسلسل دبایا گیا۔ انہوں نے کہا:
“یہ وفاداری نہیں کہ آپ اپنے ادارے کو تباہ ہوتا دیکھتے رہیں۔ افغانستان میں ہم انصاف اور امن کے لیے گئے تھے، مگر ہم ناکام رہے۔”
معصوم بچوں پر گولیاں؛ والدین سر میں گولی لگنے سے جاں بحق
انکوائری کے مطابق ایک واقعے میں دو ننھے بھائی، ایک سالہ بلال اور تین سالہ عمران کو بستر میں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ دونوں بچے زخمی ہوئے جبکہ ان کے والدین حسین اور رقیہ کو سر میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ 2012 میں پیش آیا تھا۔
این1466 کے مطابق یہ صرف چند اہلکاروں کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ ”غیر قانونی قتل ایک پھیلتا ہوا کینسر تھا جس کی خبر اسپیشل فورسز کے کئی اعلیٰ افسران کو بھی تھی“ لیکن کارروائی کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کی گئی۔
گرفتار افراد کو من گھڑت بہانہ بنا کر قتل کرنا
افسر نے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا:
“ہم جنگی جرائم کی بات کر رہے ہیں؛ گرفتار افراد کو جھوٹے طور پر مزاحمت کا الزام لگا کر گولی مار دی جاتی تھی۔”
ایک اور افسر این5461 نے بھی تصدیق کی کہ افغانستان میں ”ایکسٹرا جوڈیشل کلنگز“ ہوئیں اور یہ معاملہ “صرف برف کی چوٹی” ہے۔
برطانوی وزارتِ دفاع کی صفائی
برطانوی وزارتِ دفاع کے ترجمان نے کہا کہ حکومت انکوائری تعاون جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ اہم ہے کہ انکوائری مکمل ہونے تک مزید تبصرے سے گریز کیا جائے۔ ترجمان نے مسلح افواج کے احتساب اور شفافیت کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔