اسلام آباد کے مقتدر حلقوں میں سہیل آفریدی کے بطور خیبر پختونخوا وزیرِاعلیٰ منتخب ہونے پر گہری تشویش پائی جا رہی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق، یہ تشویش بلاوجہ نہیں، کیونکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان تمام عناصر، گروہوں اور حتیٰ کہ ممالک کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے جو ریاستِ پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف سرگرم ہیں۔
سہیل آفریدی عمران خان کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے انتخاب کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف پالیسیوں اور افغان حکمتِ عملی کی مخالفت کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں گے۔ اپنے انتخابی خطاب میں بھی انہوں نے وفاقی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی تھی۔
ذرائع کے مطابق، خیبر پختونخوا کے سرحدی اضلاع میں سیکیورٹی صورتحال انتہائی نازک ہو چکی ہے۔ افغانستان سے بڑی تعداد میں دہشت گرد دراندازی کر کے مقامی آبادی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بنوں، ڈی آئی خان، کرک اور لکی مروت جیسے اضلاع میں حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں دہشت گردوں سے نرم رویے نے ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا۔
رپورٹس کے مطابق سہیل آفریدی مسلسل مذاکرات کے حامی ہیں، مگر ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ہر امن معاہدے کے بعد دہشت گرد مزید طاقتور ہوئے۔ 2004 سے 2021 تک مختلف حکومتوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے بالآخر ناکام ہوئے۔
اسلام آباد میں سیکیورٹی ادارے اس امر پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ صوبے کے متعدد وزراء اور اراکینِ اسمبلی دہشت گرد گروہوں کو بھتہ ادا کر رہے ہیں، جبکہ کچھ عناصر سرحدی تجارت سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
وفاقی حکام کے مطابق، اگر موجودہ حالات میں صوبائی حکومت نے فوجی آپریشنز میں رکاوٹ ڈالی تو دہشت گردی کی نئی لہر پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کی عوام ہی اس سیاسی اور سیکیورٹی بحران کی اصل قیمت چکا رہی ہے، جو آئندہ دنوں میں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
دیکھیں: خیبر میں مقامی میچ کے دوران ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی انٹری، عوام کا شدید ردعمل