ہنگو میں گزشتہ روز پولیس وین پر دہشتگردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک ایس پی سمیت تین پولیس اہلکار شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ اس وقت پیش آیا جب پولیس کی گاڑی معمول کے گشت پر تھی۔ اچانک دھماکے سے گاڑی میں موجود اہلکار نشانہ بنے، جس کے باعث علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب چند روز قبل وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا پولیس کو بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیاں فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ تاہم صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے یہ پیشکش سیاسی بنیادوں پر مسترد کردی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ نے خط کے ذریعے صوبائی حکومت کو سیکورٹی خطرات کے پیش نظر جدید گاڑیوں کی فراہمی کی پیشکش کی تھی، مگر صوبائی قیادت نے اس پر کوئی پیش رفت نہ کی۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر وفاقی حکومت کی پیشکش قبول کرلی جاتی تو شاید آج ہنگو کے یہ جوان محفوظ رہتے۔ عوامی حلقوں میں بھی اس واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ صوبے کی پولیس پہلے ہی محدود وسائل میں دہشتگردی کے خلاف لڑ رہی ہے، ایسے میں جدید تحفظی آلات سے انکار سمجھ سے بالاتر ہے۔
سہیل آفریدی کی جانب سے یہ پیشکش مسترد کیے جانے کے بعد بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے وہ تمام گاڑیاں بلوچستان سکیورٹی فورسز کو دینے کا مطالبہ کیا تھا جسے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے منظور کر لیا تھا۔
پولیس حکام نے شہید اہلکار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہنگو جیسے حساس علاقوں میں سیکیورٹی چیلنجز بڑھ رہے ہیں اور اضافی وسائل ناگزیر ہیں۔ صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر پولیس کی سلامتی کے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ مزید قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔