پاکستان ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں ریاستی نظم، آئینی بالادستی اور عوامی اعتماد بیک وقت شدید دباؤ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان کی جانب سے منعقدہ دو روزہ قومی مشاورتی کانفرنس نے دراصل اسی گھمبیر صورتحال کو زبان دی ہے، جہاں ملک بھر کی سیاسی، سماجی اور سول سوسائٹی کی آوازیں یکجا ہو کر یہ بنیادی سوال اٹھا رہی ہیں کہ آیا ریاست واقعی آئین کے مطابق چل رہی ہے یا طاقت کے غیر اعلانیہ مراکز کے زیرِ اثر۔
یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ شفاف اور قابلِ اعتبار اقتدار کی منتقلی کے بغیر جمہوریت محض ایک نعرہ بن کر رہ جاتی ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد سامنے آنے والی شکایات، مبینہ بے ضابطگیاں اور آزادانہ تحقیقات کے فقدان نے عوامی مینڈیٹ کو مشکوک بنا دیا ہے۔ جب فیصلہ سازی عوام کے ووٹ کے بجائے بند کمروں میں ہوتی محسوس ہو تو ریاست اور شہری کے درمیان اعتماد کی خلیج مزید گہری ہو جاتی ہے۔
ججوں کے تبادلے، سینیارٹی کے مسلمہ اصولوں سے انحراف اور عدالتی فیصلوں پر دباؤ کے تاثر نے انصاف کے نظام کو متنازع بنا دیا ہے۔ آئینِ پاکستان عدلیہ کو مکمل خودمختاری کی ضمانت دیتا ہے، مگر عملی صورتحال اس وعدے سے مطابقت نہیں رکھتی۔ انصاف نہ صرف ہونا بلکہ نظر آنا بھی چاہیے، ورنہ ریاستی ڈھانچہ اپنی اخلاقی بنیاد کھو دیتا ہے۔
سیاسی اختلاف کو جرم بنا دینا کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ سیاسی قیادت اور کارکنوں کے خلاف مقدمات، گرفتاریاں اور طویل قید نے یہ تاثر مضبوط کیا ہے کہ قانون کا اطلاق مساوی نہیں۔ سیاست کو عدالتوں اور جیلوں سے باہر رکھنا ہی جمہوری تسلسل کی ضمانت ہو سکتا ہے۔
میڈیا پر قدغنیں، صحافیوں کے خلاف مقدمات اور اظہارِ رائے کو محدود کرنے والے اقدامات بھی تشویش ناک ہیں۔ ایک آزاد اور خودمختار میڈیا ہی ریاست کو جواب دہ بناتا ہے، مگر جب صحافت کو جرم کے مترادف بنا دیا جائے تو معاشرہ اندھیروں کی طرف بڑھتا ہے۔
سیاسی عدم استحکام کا سب سے بڑا بوجھ عام شہری اٹھا رہا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ احساسِ محرومی خاص طور پر بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور سابق فاٹا میں وفاق کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، جبکہ اٹھارویں ترمیم کو کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کو صوبائی خودمختاری پر حملہ سمجھا جائے گا۔
تحریکِ تحفظِ آئین کی قومی کانفرنس محض ایک سیاسی اجتماع نہیں بلکہ ریاست کے لیے ایک سنجیدہ انتباہ ہے۔ پاکستان کو اس وقت کسی نئے تجربے کی نہیں بلکہ 1973 کے آئین پر مکمل اور غیر مشروط عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ یہی راستہ ملک کو انتشار سے نکال کر استحکام، انصاف اور حقیقی جمہوریت کی طرف لے جا سکتا ہے۔