افغانستان کے صوبہ غزنی میں طالبان حکومت نے حال ہی میں ایک فیصلہ کیا گیا ہے جس نے غزنی کے نوآباد ٹاؤن شپ کے رہائشیوں کو شدید مسائل و پریشانیوں کا شکار کیا ہے۔ طالبان کی وزارت عدل نے 36 لاکھ 86 ہزار مربع میٹر سے زائد رقبے کو سرکاری ملکیت قرار دیا گیا ہے، جس سے ہزاروں خاندان بے گھر ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ طالبان حکام نے انہیں تین حل دیے ہیں یا تو موجودہ ریٹ سے زیادہ رقم ادا کریں، لازمی سی بات ہے اکثر خاندانوں کے لیے یہ ناممکن ہے، یا پھر ہر ماہ کا کرایہ ادا کرتے رہیں، یا پھر گھر اور متعین کردہ زمین چھوڑ دیں۔
افغان طالبان کے قائم کردہ کمیشن برائے انصاف نے ملک بھر میں درجنوں شہروں کو اسی انداز سے سرکاری ملکیت قرار دیا ہے۔ جن میں کابل کے ملا تراخیل، سردار محمد داؤد خان، ملا عزت اسی طرح بلخ کے خالد بن ولید اور میدان وردک کا شہر نو جبکہ غزنی کا حکیم سنائی، نوآباد اور ننگرہار کے حاجی قادر، اسحاق گیلانی کے علاقے شامل ہیں۔
𝗧𝗮𝗹𝗶𝗯𝗮𝗻 𝗖𝗼𝘂𝗿𝘁𝘀 𝗥𝗲𝗰𝗹𝗮𝗶𝗺 𝗦𝗲𝗶𝘇𝗲𝗱 𝗟𝗮𝗻𝗱𝘀, 𝗕𝘂𝘁 𝗖𝗿𝗶𝘁𝗶𝗰𝘀 𝗦𝗮𝘆 𝗢𝗿𝗱𝗶𝗻𝗮𝗿𝘆 𝗖𝗶𝘁𝗶𝘇𝗲𝗻𝘀 𝗔𝗿𝗲 𝗣𝗮𝘆𝗶𝗻𝗴 𝘁𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗶𝗰𝗲
— Afghan Analyst (@AfghanAnalyst2) November 13, 2025
In October, the Taliban’s Ministry of Justice announced that a special court had ruled 3,686,000 square meters… https://t.co/emBmd5TSEQ pic.twitter.com/F4zUdgMUVd
افغان طالبان نے اس موقع پر دعویٰ کیا ہے کہ یہ اقدام صرف قابض سرداروں اور مافیا کے خلاف ہے لیکن زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو مذکورہ عمل انتہائی ظالمانہ و جانبدارانہ ہے۔ مقامی شہریوں کے مطابق افغان طالبان سے وابستہ افراد خود انہیں زمینوں پر قابض ہو رہے ہیں، جبکہ عام شہریوں کو انکی ملکیت اور حق سے ہی محروم کیا جا رہا ہے۔
مقامی انسانی حقوق کے ارکان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے ذریعے افغان طالبان مخصوص نسلی اور سیاسی گروہوں کو نشانہ بنا رہے ہین۔ عالمی مبصرین نے اس عمل کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔