افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کے روز بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کی سرگرمیاں پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے اور اس کا امارتِ اسلامی افغانستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں حملے طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی جاری تھے اور 2002 سے سرزمینِ پاکلستان پر ہلاکتیں اور کاروئیاں ہورہی ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب پاک۔ افغان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہو چکا ہے۔ حالیہ پاکستانی کارروائیوں میں متعدد افغان شہری مارے جا چکے ہیں، جنہیں طالبان حکام نے دوحہ معاہدے اور استنبول جنگ بندی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ قطر اور ترکی کی ثالثی سے 30 اکتوبر 2025 کو طے پانے والی جنگ بندی میں یہ شق شامل تھی کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کی ہوگی۔
سرکاری حکام نے ذبیح اللہ مجاہد کے بیان کو گمراہ کن قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق طالبان حکومت اب بھی اپنے ملک کے متعدد حصوں پر مکمل کنٹرول نہیں رکھتی جبکہ ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک گروہ افغانستان کے مختلف علاقوں اب بھی سرگرم ہیں۔
اقوامِ متحدہ اور انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر افغان صوبوں کنڑ، ننگرہار اور پکتیکا میں فعال ہیں، جو بظاہر کابل حکومت کے ماتحت علاقے ہیں۔ نیز اقوامِ متحدہ کی سہ ماہی رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ القاعدہ کے تربیتی مراکز اب بھی غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، ارزگان اور زابل میں سرگرم ہیں جہاں ٹی ٹی پی، بلوچ لبریشن آرمی اور داعش خراسان بھی فعال ہے۔
اسی طرح امریکی سی آئی اے اور دیگر خفیہ اداروں کی رپورٹس میں تصدیق کی گئی ہے کہ حمزہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر اعلیٰ رہنما افغانستان میں طالبان کی سرپرستی میں مقیم ہیں۔ کابل میں ایمن الظواہری کی 2022 میں ہلاکت اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ القاعدہ کی قیادت طالبان کے زیرِ سایہ محفوظ پناہ گاہوں میں رہ رہی تھی۔
اقوامِ متحدہ کی 36ویں مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے تقریباً 6 ہزار جنگجو افغانستان کے چھ صوبوں میں سرگرم ہیں، جو القاعدہ کے ساتھ مشترکہ تربیتی مراکز چلاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کابل میں مقیم ہیں اور طالبان حکام سے ماہانہ 43 ہزار امریکی ڈالر بطور وظیفہ وصول کرتے ہیں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کا یہ مؤقف کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا مسئلہ ہے، حقائق اور عالمی شواہد کے منافی ہے۔ اقوامِ متحدہ، امریکی محکمۂ خارجہ اور آزاد تحقیقی اداروں کی رپورٹوں میں تسلسل سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ افغانستان ٹی ٹی پی، بی ایل اے، داعش خراسان، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان جیسے گروہوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔
پاکستان کی جانب سے مسلسل یہی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکتے ہوئے بین الاقوامی و سفارتی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔