پاکستان کی جانب سے داعش خراسان کے خلاف جاری انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیاں طالبان حکومت کے دعووں کے برعکس حقائق پیش کرتی ہیں۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی پشتو اور ٹی او ایل او نیوز کو دیے گئے بیانات میں دعویٰ کیا تھا کہ داعش خراسان کے عناصر پاکستان میں سرگرم ہیں اور گرفتاریاں طالبان کی فراہم کردہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ تاہم پاکستان میں کی گئی متعدد تصدیق شدہ گرفتاریوں اور اقوامِ متح رپورٹس اس دعوے کی تردید کرتی ہیں۔
پاکستان کی کارروائیاں کی تفصیل
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے 2024 اور 2025 کے دوران داعش خراسان کے اہم عناصر کو گرفتار یا ہلاک کیا ہے جن میں سلطان عزیز اعزام جو داعش خراسان کے مرکزی پروپیگنڈسٹ اور الاعظیم فاؤنڈیشن کے بانی ہیں، ان کی گرفتاری سے داعش کا پروپیگنڈا ڈھانچہ متاثر ہوا۔
محمد شریف اللہ جو کابل ایئرپورٹ بم حملے میں ملوث، گرفتار اور انسدادِ دہشت گردی کے اداروں کے ساتھ تعاون کیا۔ ترکی کی خفیہ ایجنسی کے تعاون سے مہمّت گورن، داعش خراسان کا مبینہ رکن، ڈیورنڈ لائن کے قریب گرفتار کیا گیا، جس سے سرحدی نیٹ ورکس کی نوعیت واضح ہوئی۔ یہ گرفتاریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان داعش خراسان کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں بلکہ ایک فعال انسدادِ دہشت گردی محاذ کے طور پر کام کر رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹس
اقوامِ متحدہ کی نگرانی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی کارروائیوں نے داعش خراسان کے کمانڈ اینڈ کنٹرول ڈھانچے، بھرتی کے نیٹ ورک اور بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ داعش خراسان کی زیادہ تر سرگرمیاں افغانستان میں جاری ہیں نہ کہ پاکستان میں۔
تجزیہ کاروں کی رائے
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر داعش خراسان پاکستان میں فعال ہوتی تو اس کے اعلیٰ پروپیگنڈا سربراہان اور کلیدی سہولت کار گرفتار نہ ہوتے۔ گرفتاریوں نے واضح طور پر اس بیانیے کو رد کیا کہ پاکستان دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے۔
ایک تجزیہ کار نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے فراہم کی گئی قابلِ عمل انٹیلی جنس نے ایسے افراد کی گرفتاری ممکن بنائی جو افغانستان اور بیرونی ممالک میں دہشت گرد کارروائیوں سے منسلک تھے۔ یہ رویہ کسی بھی طرح پاکستان کے سرپرستی کے دعوے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔
علاقائی استحکام کے لیے شفافیت
تجزیہ کاروں کے مطابق علاقائی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ زمینی حقائق کو تسلیم کیا جائے۔ شناخت، مقامات اور گرفتاریوں کی تاریخیں ظاہر کیے بغیر الزام لگانا اعتماد کو کمزور کرتا ہے۔ جبکہ تصدیق شدہ گرفتاریاں اور متاثرہ خلیے اعتماد بڑھاتے ہیں۔ پاکستان کا داعش خراسان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کا ریکارڈ دستاویزی اور قابلِ تصدیق ہے جبکہ طالبان کے دعوے صرف سیاسی بیانیے کے زمرے میں آتے ہیں۔
دیکھیں: افغان طالبان کی حکومت میں خوفزدہ شہری اور بڑھتے ہوئے جرائم