ایران اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین آبی بحران کا سامنا کر رہا ہے، جس نے تہران اور اس کے مضافات میں رہنے والے ایک کروڑ سے زائد شہریوں کی زندگیوں کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ملک چھ سال سے مسلسل خشک سالی کی لپیٹ میں ہے، جبکہ رواں سال بارشوں میں 86 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ تہران میں صورتحال مزید تشویشناک ہے جہاں رواں موسم میں صرف ایک ملی میٹر بارش ہوئی جو گزشتہ سو برس میں پہلی بار دیکھا گیا ہے۔ دارالحکومت کو پانی فراہم کرنے والے اہم ڈیمز اپنی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ حکام کے مطابق کرج، لاٹیان، لار، مملو اور طالقان ڈیموں میں پانی کے ذخائر گزشتہ 60 برس کی کم ترین سطح تک گر گئے ہیں اور موجودہ صورتحال جاری رہی تو چند ہفتوں میں عملی طور پر خشک ہو سکتے ہیں۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے خبردار کیا ہے کہ اگر دسمبر تک بارش نہ ہوئی تو حکومت کو تہران میں پانی کی باضابطہ تقسیم شروع کرنا پڑے گی، اور اگر اس کے باوجود بارش نہ ہوئی تو شہریوں کو شہر خالی کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ پانی کی قلت نے کئی علاقوں میں پریشر کم کر دیا ہے، جبکہ مشرقی تہران کے متعدد علاقوں میں پانی رات بھر بند رہتا ہے۔ عوام میں تشویش بڑھ رہی ہے کیونکہ پہلے ہی معاشی بدحالی اور عالمی پابندیوں نے روزمرہ زندگی کو مشکل بنا رکھا ہے۔ ماہرین کے مطابق خشک سالی محض موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ نہیں بلکہ دہائیوں کی بدانتظامی، ڈیموں کی حد سے زیادہ تعمیر، غیر قانونی ٹیوب ویلوں اور ناقص زرعی نظام نے آبی نظام کو تباہ کر دیا ہے۔
ملک بھر میں 19 بڑے ڈیم تقریباً مکمل طور پر خشک ہو چکے ہیں جبکہ مشہد جیسے بڑے شہروں میں بھی ذخائر چند فیصد باقی رہ گئے ہیں۔ حکومتی سطح پر دباؤ بڑھ رہا ہے کیونکہ پانی کی قلت ماضی میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دے چکی ہے، خصوصاً جنوبی علاقوں میں۔ اس مرتبہ بھی خدشہ ہے کہ اگر آبی بحران مزید گہرا ہوا تو عوامی سطح پر بے چینی بڑھ سکتی ہے۔ ادھر حکام عارضی اقدامات جیسے پانی کا دباؤ کم کرنا، دیگر ذخائر سے پانی منتقل کرنا اور شہریوں کو پانی محفوظ کرنے کے آلات لگانے کی ہدایات جاری کر رہے ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات عارضی ہیں اور بحران کا مستقل حل جامع اصلاحات اور موثر پانی کے انتظام میں پوشیدہ ہے۔
شدید گرمی، بار بار بجلی کی بندش اور ریکارڈ ٹوٹتے درجہ حرارت نے صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔ کئی علاقوں میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سے تجاوز کر چکا ہے جس سے زیر زمین پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ کچھ ماہرین نے حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں، نااہل افراد کی تعیناتی اور وسائل کے سیاسی استعمال پر کھل کر تنقید کی ہے، تاہم حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ عوامی سطح پر مایوسی بڑھ رہی ہے اور بعض حلقوں نے ایک بار پھر مذہبی روایات کی طرف رجوع کی تجویز دی ہے، جیسے اجتماعی دعاؤں اور بارش کی اپیلیں۔
تہران کے آبی ذخائر نصف ہو چکے ہیں اور موجودہ صورتحال میں یہ بحران آنے والے ہفتوں میں خطرناک موڑ اختیار کر سکتا ہے۔ ایران کو نہ صرف موسمیاتی دباؤ بلکہ اپنی دہائیوں پرانی پالیسی غلطیوں کا بھی سامنا ہے، اور اگر فوری، عملی اور طویل المدتی اقدامات نہ کیے گئے تو تہران جیسے بڑے شہر کا جزوی انخلا حقیقت بن سکتا ہے۔