شام کے وسطی علاقے میں امریکی فوج پر ہونے والے ایک حملے میں دو امریکی فوجی اور ایک مقامی شہری مترجم ہلاک جبکہ تین امریکی فوجی اور کم از کم دو شامی اہلکار زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ ہفتے کے روز حمص کے علاقے پالمیرا کے قریب اس وقت پیش آیا جب امریکی فوجی داعش کے خلاف جاری انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کے تحت ایک اہم مقامی رہنما سے ملاقات کر رہے تھے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ نے واقعے کو ایک گھات لگا کر کیا گیا حملہ قرار دیا اور بتایا کہ حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعے کو داعش سے منسوب کرتے ہوئے تنظیم کے خلاف سخت جوابی کارروائی کا اعلان کیا۔ سوشل میڈیا پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ حملہ ایک ایسے حساس علاقے میں کیا گیا جو مکمل طور پر شامی ریاست کے کنٹرول میں نہیں، اور خبردار کیا کہ اس کے “سنگین نتائج” ہوں گے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ زخمی امریکی فوجی بہتر حالت میں ہیں، جبکہ شامی صدر احمد الشرع اس حملے پر شدید غصے اور اضطراب کا شکار ہیں۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے بھی سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر دنیا میں کہیں بھی امریکیوں کو نشانہ بنایا گیا تو امریکہ حملہ آوروں کا تعاقب کرے گا، انہیں ڈھونڈے گا اور بے رحمی سے ہلاک کرے گا۔ پینٹاگون کے مطابق حملہ ایک تنہا مسلح شخص نے کیا، جسے بعد میں شراکت دار فورسز نے ہلاک کر دیا، تاہم واقعے کی مکمل تفصیلات تاحال زیرِ تفتیش ہیں۔
حملے کی نوعیت اور حملہ آور کے بارے میں مختلف بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ امریکی نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر کے ڈائریکٹر جو کینٹ نے عندیہ دیا کہ یہ واقعہ ممکنہ طور پر اندرونی نوعیت کا حملہ، یعنی گرین آن بلیو، ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب رائٹرز سے بات کرنے والے شامی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور شامی فورسز کا رکن تھا، جبکہ شامی وزارتِ داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ اس فرد میں انتہا پسند رجحانات کے شواہد موجود تھے اور اس کے خلاف فیصلہ متوقع تھا۔
واقعے کے بعد علاقے میں سکیورٹی سخت کر دی گئی، دیر الزور–دمشق شاہراہ کو عارضی طور پر بند کیا گیا اور امریکی ہیلی کاپٹروں نے زخمیوں کو العنف بیس منتقل کیا۔ امریکی افواج نے پالمیرا کے اطراف فضائی فلیئرز گرا کر طاقت کا مظاہرہ بھی کیا۔ امریکی سفیر برائے ترکیہ ٹام بارک نے اس حملے کو ایک بزدلانہ دہشت گرد کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ شامی حکومت کے ساتھ مل کر اس واقعے میں ملوث ہر فرد کو جوابدہ بنائے گا۔
یہ حملہ شامی صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے ایک سال بعد امریکی افواج کو جانی نقصان پہنچانے والا پہلا واقعہ ہے۔ شام میں داعش اگرچہ 2018 میں علاقائی کنٹرول سے محروم ہو چکی ہے، تاہم وہ اب بھی وقفے وقفے سے حملے کر رہی ہے۔ دسمبر 2024 تک شام میں تقریباً دو ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جو داعش کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں، جبکہ حالیہ واقعے کے بعد امریکہ نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ داعش کے مکمل خاتمے تک کارروائیاں جاری رہیں گی۔
دیکھیں: اقوام متحدہ کی بریفنگ: افغانستان کی بگڑتی سکیورٹی اور علاقائی خطرات