امریکی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس تُلسی گیبارڈ نے خبردار کیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے دور میں افغان شہریوں کی مناسب جانچ پڑتال کے بغیر امریکا میں داخلے نے سنگین سکیورٹی خطرات کو جنم دیا۔ ان کے مطابق امریکی اداروں نے ایسے کم از کم 18 ہزار افراد کی نشاندہی کی ہے جو معروف یا مشتبہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھے، جس سے افغانستان میں سرگرم انتہاپسند نیٹ ورکس کے عالمی پھیلاؤ پر سوالات مزید گہرے ہو گئے ہیں۔
تُلسی گیبارڈ کا کہنا ہے کہ افغانستان اس وقت داعش خراسان، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور ان سے منسلک گروہوں کے لیے ایک مرکزی مرکز کے طور پر کام کر رہا ہے، جہاں انہیں تربیت، بھرتی، رابطہ کاری اور دوبارہ منظم ہونے کے لیے کھلی فضا میسر ہے۔ امریکی انٹیلی جنس جائزوں کے مطابق افغانستان کے اندر موجود ماحول نے ان نیٹ ورکس کو بلا روک ٹوک سرگرمیوں کا موقع دیا، جس کے نتیجے میں بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
امریکی اداروں ایف بی آئی، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر اور ڈی ایچ ایس نے افغان مہاجرین کی دوبارہ جانچ شروع کر دی ہے تاکہ دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کا اندازہ لگایا جا سکے۔ رپورٹس کے مطابق 2 ہزار سے زائد افغان افراد کے روابط القاعدہ، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے جوڑے جا رہے ہیں، جبکہ ہزاروں کیسز داعش خراسان اور القاعدہ سے منسلک ہونے کے شبہات کے تحت زیرِ جائزہ ہیں۔
https://www.foxnews.com/video/6386387627112
پاکستان کے لیے یہ انکشافات ایک بار پھر اس کے دیرینہ مؤقف کی تصدیق کرتے ہیں کہ افغان سرزمین سے سرحد پار دہشت گردی خطے کے استحکام کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ پاکستانی سکیورٹی ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے مغربی محاذ پر دراندازی کی کوششیں اور حملوں کی منصوبہ بندی اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغانستان کے اندر محفوظ پناہ گاہیں بدستور موجود ہیں۔ بڑھتا ہوا داعش خراسان کا اثر و رسوخ خطرات کی ایک نئی پرت کا اضافہ کر رہا ہے، جو باہم جڑے ہوئے انتہاپسند نیٹ ورکس کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق افغانستان میں مؤثر انسدادِ دہشت گردی اقدامات کی کمی نے دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ جنم لینے، نیٹ ورکس پھیلانے اور پاکستان سمیت خطے اور اس سے باہر اہداف کو نشانہ بنانے کا موقع دیا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کی جانب سے بیرونی حملوں کی سازشوں سے متعلق وارننگ اس عالمی خطرے کو مزید اجاگر کرتی ہے جو افغانستان سے برآمد ہو رہا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف ٹھوس کارروائیوں کے بغیر علاقائی امن ممکن نہیں۔ پاکستان خود سرحد پار دہشت گردی کا سب سے بڑا متاثرہ ملک رہا ہے، جہاں متعدد حملے افغان سرزمین سے منصوبہ بندی یا سہولت کاری کے شواہد کے ساتھ جوڑے گئے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس کی تازہ وارننگز اس امر کی توثیق کرتی ہیں کہ افغانستان میں عدم استحکام نہ صرف خطے بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی ایک مستقل خطرہ بنا ہوا ہے۔
دیکھیں: افغانستان بحران کے دہانے پر، خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق پر عالمی تشویش میں اضافہ