اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں سالانہ اجلاس آج منگل 9 ستمبر سے نیویارک میں شروع ہورہا ہے، جس میں دنیا کے 193 رکن ممالک شریک ہوں گے۔ اجلاس کا باضابطہ آغاز افتتاحی نشست سے ہوگا جبکہ عالمی رہنما 23 سے 29 ستمبر کے دوران جنرل ڈیبیٹ میں اپنے پالیسی بیانات اور مؤقف پیش کریں گے۔
اس اجلاس میں اس سال سب سے نمایاں موضوع فلسطین کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا معاملہ ہے، جس پر عالمی سطح پر وسیع تر توجہ درکار ہے۔
پاکستانی وفد کی شرکت
اجلاس میں پاکستان کا وفد بھی شرکت کرے گا۔ پاکستان اجلاس کے دوران انسداد دہشت گردی کیلئے دی جانے والی قربانیوں، علاقائی سلامتی، مسئلہ کشمیر و فلسطین سمیت ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات پر بات چیت کرے گا۔
فلسطین کو تسلیم کرنے پر خصوصی کانفرنس
ذرائع کے مطابق فلسطین کو تسلیم کرنے والی ریاستوں کی حتمی فہرست 22 ستمبر کو سعودی عرب اور فرانس کے زیر اہتمام ایک خصوصی کانفرنس میں طے کی جائے گی۔ یہ کانفرنس جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں ہوگی۔
سعودی عرب اور فرانس نے رواں سال جون میں ’’دو ریاستی حل‘‘ پر مبنی ایک بین الاقوامی کانفرنس کی قیادت کی تھی، جسے وسیع عالمی حمایت ملی۔ اسی موقع پر غزہ کے محاصرے کی شدید مذمت بھی کی گئی تھی۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ نے ایک زبانی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی، جس میں فلسطین کے پرامن حل اور دو ریاستی فارمولے پر زور دیا گیا تھا۔
بیلجیئم سمیت دیگر کئی ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
عالمی رہنماؤں کی حمایت اور ممکنہ اعلانات
تجزیہ کاروں کے مطابق اس بار جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کئی سربراہان مملکت فلسطینی ریاست کے قیام کی کھل کر حمایت کریں گے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فلسطین کے حق میں باضابطہ اعلانات جنرل ڈیبیٹ کے دوران 23 سے 29 ستمبر تک سامنے آئیں گے۔
رپورٹس کے مطابق 12 سے زائد مغربی ممالک بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ اس خصوصی کانفرنس کے بعد اپنے فیصلوں کا اعلان کر سکتے ہیں۔
مودی کی عدم شرکت
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس بار جنرل ڈیبیٹ سے خطاب نہیں کریں گے۔ یہ فیصلہ بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے سفارتی سطح پر کیا گیا ہے۔ مودی کی غیر حاضری کو بعض حلقے بھارت کی خارجہ پالیسی کی تبدیلی یا داخلی مصروفیات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
فلسطینی وفد کو ویزا جاری نہ کیا گیا
ایک اہم پیش رفت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ امریکا نے فلسطینی وفد کو جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے ویزا جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس فیصلے کو فلسطین کے مسئلے پر امریکی مؤقف اور اس کی موجودہ پالیسیوں کے تسلسل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
امن و سلامتی اور دیگر عالمی مسائل بھی ایجنڈے میں شامل
اگرچہ فلسطین کا معاملہ اجلاس پر غالب ہے لیکن عالمی رہنما بین الاقوامی امن و سلامتی، ماحولیاتی تبدیلی، معاشی بحران اور عالمی تجارتی امور پر بھی اظہار خیال کریں گے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس تاریخی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی ممکنہ پیش رفت نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک نئے باب کی شروعات کر سکتی ہے۔ دنیا کی نظریں اس وقت نیویارک پر جمی ہوئی ہیں، جہاں اگلے چند دنوں میں فلسطینی عوام کی جدوجہد کو عالمی سطح پر تسلیم یا رد کیے جانے کا فیصلہ سامنے آئے گا۔
دیکھیں: پاکستان اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں علاقائی سکیورٹی کے خدشات اجاگر کرے گا