اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس 9 ستمبر 2025 کوامریکی شہر نیو یارک میں شروع ہو رہا ہے۔ پاکستان اس اجلاس میں اپنی شمولیت کے ذریعے عالمی امن کے عزم کا اعادہ کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی ان سنگین سیکیورٹی چیلنجز کو بھی اجاگر کرے گا جن کا اسے سامنا ہے۔
پاکستان مسلسل ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا نشانہ رہا ہے، خاص طور پر بھارت اور افغانستان کی جانب سے دہشت گردی پاکستان کیلئے ایک مسلسل مسئلہ ہے جسے بے انتہا جانی و مالی نقصانات ہو چکے ہیں۔ بھارتی ریاستی اداروں کی پشت پناہی سے چلنے والے گروہ پاکستان کے اندر حملے کرتے ہیں، جبکہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ صورتحال خطے کے امن اور استحکام کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
اب تک پاکستان 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دے چکا ہے جبکہ 150 ارب ڈالر سے زیادہ کے معاشی نقصانات اٹھا چکا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ بلوچستان میں بھارتی حمایت یافتہ تنظیمیں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ سرگرم ہیں، جبکہ خیبر پختونخوا میں افغان سرزمین سے چلنے والی کالعدم ٹی ٹی پی حملے کر رہی ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی کو پہلے ہی ایک عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے، جو بھارت کی منظم پراکسی سرگرمیوں کا ثبوت ہے۔
پاکستان کے خلاف سازشیں صرف بھارت تک محدود نہیں بلکہ اس میں اب اسرائیلی کردار بھی منظر عام پر آیا ہے۔ اسرائیل سے وابستہ تھنک ٹینک میمری نے ’’بلوچستان اسٹڈی پروجیکٹ‘‘ شروع کیا ہے، جس میں بھارت کے پرانے نیٹ ورکس کو اسرائیلی روابط کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک وسیع تر منصوبہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو ان خطرات کا سنجیدگی سے نوٹس لینا ہوگا جو 24 کروڑ آبادی والے ایک رکن ملک کو درپیش ہیں۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ پائیدار امن اور ترقی تبھی ممکن ہے جب ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کو ختم کیا جائے۔
دیکھیں: پاکستانی نائب مستقل مندوب کا اقوام متحدہ میں بھارتی الزامات پر دو ٹوک مؤقف