برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں حالیہ ہفتوں کے دوران افغان پناہ گزینوں، خصوصاً مردوں، کی گرفتاری اور حراست کے واقعات میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب ایک افغان شہری پر امریکی نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں پر فائرنگ کا الزام عائد کیا گیا، جس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن پالیسیوں میں سخت اقدامات کا اعلان کیا۔
رپورٹ کے مطابق متعدد افغان پناہ گزین، جو حالیہ برسوں میں امریکہ-میکسیکو سرحد کے ذریعے داخل ہوئے تھے اور اپنی امیگریشن عدالتوں میں سماعت کے منتظر تھے، اب امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کی جانب سے گرفتار کیے جا رہے ہیں۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو باقاعدگی سے کو رپورٹ کر رہے تھے، الیکٹرانک مانیٹرنگ ڈیوائسز پہنے ہوئے تھے اور جن کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود نہیں تھا۔
دی گارڈین کے مطابق انڈیانا کے شہر بلومنگٹن میں ایک افغان پناہ گزین امیر کو پیر کے روز انگریزی کلاس سے واپسی پر غیرنشان زدہ گاڑی میں موجود اہلکاروں نے روکا اور ہتھکڑیاں لگا کر حراستی مرکز منتقل کر دیا۔ اسی طرح نیویارک اور شمالی کیلیفورنیا میں بھی درجنوں افغان پناہ گزین آئی سی ای دفاتر میں رپورٹ کرنے یا کمیونٹی کے اندر سے گرفتار کیے گئے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس فرسٹ سے وابستہ شالہ غفاری کے مطابق ان گرفتاریوں نے افغان کمیونٹی میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ گھروں سے نکلنے سے بھی گھبرا رہے ہیں اور کینیڈا یا کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کے امکانات کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔
دی گارڈین کے مطابق زیرِ حراست آنے والے بیشتر افغان شہری 2021 میں امریکی انخلا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان سے فرار ہو کر امریکہ پہنچے تھے۔ کئی افراد کو بائیڈن دور میں ہیومینیٹیرین پیرول دیا گیا تھا، جس کے تحت انہیں امریکہ میں رہائش اور کام کی عارضی اجازت حاصل تھی، جب تک ان کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ نہیں ہو جاتا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے حالیہ پالیسی تبدیلیوں کے تحت تقریباً 15 لاکھ افراد کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ روک دیا ہے، جبکہ 19 ممالک کے شہریوں کی گرین کارڈ، شہریت اور پناہ کی درخواستوں کی پروسیسنگ بھی معطل کر دی گئی ہے۔ تاہم، اس کے باوجود امیگریشن عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات رکھنے والے افراد قانونی طور پر سماعت کے حق دار ہیں۔
افغان پناہ گزینوں کے وکلا کے مطابق آئی سی ای کی جانب سے سماعت سے قبل گرفتاریوں کا رجحان بڑھ رہا ہے، جس کے باعث افراد کو حراست میں رہ کر ہی اپنے مقدمات کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ کولمبیا لا اسکول کی امیگرنٹس رائٹس کلینک کی ڈائریکٹر ایلورہ مکھرجی نے بتایا کہ ان کے ایک افغان مؤکل کو نیویارک میں آئی سی ای دفتر میں رپورٹ کرنے پر بغیر کسی پیشگی اطلاع کے گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں نیو جرسی کے حراستی مرکز منتقل کر دیا گیا۔
دی گارڈین کے مطابق حراست میں لیے گئے کئی افغان شہریوں کو یہ تک نہیں بتایا گیا کہ انہیں کس بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے۔ خاندانوں اور وکلا کو کئی گھنٹوں یا دنوں تک ان کی لوکیشن کا علم نہیں ہو پاتا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغانستان واپسی کی صورت میں ان افغان پناہ گزینوں کو دوبارہ گرفتاری، تشدد یا موت کا خطرہ لاحق ہے، خاص طور پر سابق سرکاری اہلکاروں اور مذہبی اقلیتوں کے لیے۔ ہزارہ شیعہ برادری، جس سے کئی زیرِ حراست افراد کا تعلق ہے، 2021 کے بعد سے طالبان کے دور میں مسلسل تشدد اور ظلم کا نشانہ بن رہی ہے۔
امیگریشن وکلا کا کہنا ہے کہ انہیں خود بھی واضح علم نہیں کہ نئی پالیسیوں کے تحت افغان پناہ گزینوں کے قانونی کیسز کا مستقبل کیا ہوگا۔ امریکن امیگریشن لائرز ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت کی جانب سے “غیر معینہ مدت کے لیے تعطل” جیسے الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں، جس نے غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھا دیا ہے۔
دی گارڈین کے مطابق یہ گرفتاریوں کا سلسلہ افغان پناہ گزینوں میں شدید خوف، ذہنی دباؤ اور عدم تحفظ کو جنم دے رہا ہے، جبکہ انسانی حقوق کے کارکن خبردار کر رہے ہیں کہ ایسے اقدامات ان افراد کو مزید خطرے میں ڈال سکتے ہیں جو پہلے ہی جنگ، تشدد اور سیاسی انتقام سے بچنے کے لیے اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔
دیکھیں: اقوام متحدہ کی بریفنگ: افغانستان کی بگڑتی سکیورٹی اور علاقائی خطرات