امریکی ثالث جیرڈ کُشنر کی اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے اہم ملاقات۔ جس میں غزہ جنگ بندی معاہدہ اور ٹرمپ کے امن منصوبے پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت پرہوئی جب غزہ سے متعلق فیصلہ پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے۔ خیال رہے کہ کُشنر جو صدر ٹرمپ کے داماد اور مشرق وسطیٰ کے امن منصوبے کے بانیان میں سے ہیں انہوں نے اسرائیل پہنچ کر نیتن یاہو سے ملاقات کرتے ہوئے غزہ میں قیامِ امن کے لیے مزید اقدامات پر غور کیا۔
دو سال کے بعد امن کی امید
مذکورہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب واشنگٹن، قطر، مصر اور ترکی کی ثالثی سے اسرائیلی حکام کو راضی کیا جا چکا ہے۔ دیکھا جائے تو امن معاہدے کے نتیجے میں غزہ کے لاکھوں باسیوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ تاہم فلسطینی حکام کے مطابق دو سالہ جنگ میں 69 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
ملاقات کا ایجنڈا
اسرائیلی حکومت کی ترجمان شوش بیدروسیان کے مطابق ملاقات میں صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کی شقوں پر غور کیا گیا، جن میں حماس کا اسلحہ اور ساز و سامان چھوڑنا، غزہ میں عالمی حفاظتی افواج کی تعیناتی اور ایسی حکومت کا قیام جو حماس سے آزاد ہو۔
جبکہ دوسری جانب حماس نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ہم کسی بھی صورت میں ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ اس کے رد عمل میں نیتن یاہو نے اسرائیلی پارلیمان میں اعلان کیا کہ غزہ کو غیر عسکری اور پُرامن بننا ہوگا۔ چاہے کسی بھی طرح ہو۔
رفح کے حالات
رپورٹ کے مطابق غزہ کے جنوبی شہر رفح میں تقریباً 200 سے زائد حماس کے افراد زیرزمین سرنگوں میں محصور ہیں۔ حماس نے ان افراد کے لیے محفوظ راستوں کا مطالبہ کیا ہے مگر اسرائیل نے یہ شرط مسترد کر دی ہے۔ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اس معاملے کو امن منصوبے کا ٹیسٹ کیس قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو پورے جنگ بندی معاہدے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے. رائٹرز کے مطابق اگر اسرائیل نے زبردستی کارروائی کی تو پوری جنگ بندی داؤ پر لگ جائے گی۔
عالمی افواج اور کردار
جنگ بندی معاہدے کے تحت غزہ میں ایک عبوری انتظامی کونسل کا قیام، بین الاقوامی سکیورٹی فورس کی تعیناتی اور تعمیراتی منصوبوں پر بھی اتفاق ضروری ہے۔ اسی طرح مجوزہ عالمی فوج کے لیے اقوام متحدہ کی منظوری لازمی قرار دی جا سکتی ہے، تاہم بیشتر ممالک فی الحال اس کے حامی نہیں ہیں۔ جن میں مصر، قطر اور ترکی ممکنہ شراکت دار سمجھے جا رہے ہیں، جبکہ متحدہ عرب امارات نے شرکت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں متحدہ عرب امارات کا اس فورس میں شامل ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔