...
دنیا کا ہر والد یہ چاہتا ہے کہ اپنے حصے کے غم، تکالیف اورصدمے اپنی اولاد کو ورثے میں نہ دئیے جائیں۔ بعض سانحے مگر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے زخم اور ان سے رستا لہو، ان کی تکلیف اور اس المناک تجربے سے حاصل کردہ سبق ہماری اگلی نسلوں کو بھی منتقل ہونے چاہئیں۔ یہ اس لئے کہ وہ ماضی سے سبق سیکھیں اور اپنے حال اور مستقبل کو خوشگوار، سنہری اور روشن بنا سکیں۔ سولہ دسمبر اکہتر بھی ایسا ہی ایک سبق ہے۔

December 16, 2025

نوے ژوند ادبی، ثقافتی اور فلاحی تنظیم اسلام آباد کے زیرِ اہتمام اے پی ایس شہداء کو سلام ادب، شمع اور عزمِ امن کے ساتھ 11ویں برسی پر پروقار مشاعرہ و شمع افروزی

December 16, 2025

سقوطِ ڈھاکہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ریاست کی اصل طاقت بندوق نہیں، بلکہ آئین، پارلیمان، عوامی مینڈیٹ اور مساوی شہری حقوق ہوتے ہیں۔ جب سیاست کو دبایا جاتا ہے تو تاریخ خود کو دہرانے لگتی ہے۔ یہ سانحہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ اگر ہم نے ماضی سے سیکھنے کے بجائے اسے فراموش کر دیا تو زخم بھرنے کے بجائے مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔

December 16, 2025

بونڈائی بیچ فائرنگ کیس میں تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ ملزم ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا تھا جبکہ پولیس حملہ آوروں کے بیرونی روابط اور محرکات کی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے

December 16, 2025

پاکستانی طلبہ نے عالمی مقابلوں میں انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، قانون اور سائنس کے شعبوں میں شاندار کامیابیاں حاصل کر کے پاکستان اور تعلیمی اداروں کا نام روشن کیا

December 16, 2025

امریکی میگزین دی نیشنل انٹرسٹ کے مطابق طالبان کی تعلیمی اصلاحات نوجوان نسل کو نظریاتی تربیت فراہم کر رہی ہیں، جسکے نتیجے میں تنقیدی سوچ محدود اور عقیدتی اطاعت پروان چڑھ رہی ہے

December 16, 2025

سولہ دسمبر (1971,2014): پاکستانی ریاست اور قوم نے کیا سبق سیکھے؟

دنیا کا ہر والد یہ چاہتا ہے کہ اپنے حصے کے غم، تکالیف اورصدمے اپنی اولاد کو ورثے میں نہ دئیے جائیں۔ بعض سانحے مگر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے زخم اور ان سے رستا لہو، ان کی تکلیف اور اس المناک تجربے سے حاصل کردہ سبق ہماری اگلی نسلوں کو بھی منتقل ہونے چاہئیں۔ یہ اس لئے کہ وہ ماضی سے سبق سیکھیں اور اپنے حال اور مستقبل کو خوشگوار، سنہری اور روشن بنا سکیں۔ سولہ دسمبر اکہتر بھی ایسا ہی ایک سبق ہے۔
سولہ دسمبر (1971,2014): پاکستانی ریاست اور قوم نے کیا سبق سیکھے؟

انیس سو اکہتر میں ریاست کمزور تھی اور دشمن جارح ، 2014 میں ریاست کنفیوژن کا شکار جبکہ دشمن بے رحم مگر 2024،25 میں ریاست واضح موقف اور یکسو پالیسی کے ساتھ کام کر رہی ہے، اسی وجہ سے دشمن دباؤ میں ہے۔

December 16, 2025

سولہ دسمبر پاکستانی تاریخ کا بہت اہم، افسوسناک اور لہورنگ سیاہ دن ہے۔ بدقسمتی سے یہ دن دو انداز سے پاکستانی قوم کو سہنا پڑا۔ سولہ دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ ہوا۔ مشرقی پاکستان ہمیشہ کے لئے ہم سے الگ ہوگیا اور ایک ایسا بڑا دھچکا لگا جس کے اثرات اور تکلیف آج تک پاکستانی عوام کے خمیر میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر بہت کچھ لکھا بھی گیا، مگر ہنوز اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔


دنیا کا ہر والد یہ چاہتا ہے کہ اپنے حصے کے غم، تکالیف اورصدمے اپنی اولاد کو ورثے میں نہ دئیے جائیں۔ بعض سانحے مگر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے زخم اور ان سے رستا لہو، ان کی تکلیف اور اس المناک تجربے سے حاصل کردہ سبق ہماری اگلی نسلوں کو بھی منتقل ہونے چاہئیں۔ یہ اس لئے کہ وہ ماضی سے سبق سیکھیں اور اپنے حال اور مستقبل کو خوشگوار، سنہری اور روشن بنا سکیں۔ سولہ دسمبر اکہتر بھی ایسا ہی ایک سبق ہے۔


سقوط مشرقی پاکستان کے تنتالیس سال بعد سولہ دسمبر 2014میں پشاور آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے انتہائی سفاکانہ انداز میں لہو کی جو ہولی کھیلی، معصوم بچوں کو وحشی درندوں کے انداز میں نشانہ بنایا.پولیس کے مطابق وارسک روڈ پشاور پر واقع اس سکول میں چھ دہشت گرد گھسے، انہوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ایک سو چوالیس طلبہ کو شہید کر دیا، وہ چھ کے چھ دہشت گرد بھی مردار ہوئے۔ اس سانحے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع ہوا، جس میں دہشت گرد گروپوں کا صفایا کیا گیا، تاہم چند برسوں بعد پھر سے دہشت گرد گروپ ازسرنومنظم ہوئے، جن کے خلاف پھر سے ایک منظم آپریشن چل رہا ہے۔


سولہ دسمبر اکہتر اور سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے واقعات ایسے ہیں کہ ان کا تجزیہ کیا جائے ، دیکھا جائے کہ ہم نے ان سے کیا سیکھا؟یہ بھی کہ اپنے آج یعنی لمحہ موجود میں ہماری سول ملٹری قیادت کہاں کھڑی ہے ؟پہلے سولہ دسمبر اکہتر کو لیتے ہیں۔


ہماری غلطیاں اپنی جگہ مگر اصل وجہ بھارتی حملہ بنا


یہ آج روز روشن جیسی حقیقت ہے۔ اس میں کوئی انکار نہیں کہ ستر کے الیکشن کو تسلیم نہ کرنا ایک بڑی سیاسی غلطی تھی۔ اس معاملے کو بہتر انداز میں سیاسی طور پر ہینڈل کرنا چاہیے تھا۔ غلطیاں ہوئیں، بڑی غلطیاں، مگر بہرحال مشرقی پاکستان کبھی جدا نہ ہوتا اگربھارت کھلی دشمنی اور کھلی مداخلت پر نہ اتر آتا۔ یہ وہ نکتہ ہے جو پاکستانی قوم اور ہماری آنے والی نئی نسلوں کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے۔ بھارت ہی نے پاکستان کو دو لخت کیا اور آئندہ بھی اسی دشمن سے ہمیں خطرہ لاحق ہے۔ ہمیں ہمیشہ اپنے اس بدترین پڑوسی سے خبردار اور مستعد رہنا پڑے گا۔

سقوطِ ڈھاکہ 1971۔ بھارتی کردار: حقیقت


اب تو اس حوالے سے بہت کچھ شائع ہوچکا ہے ۔مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کے بعض ساتھیوں نے بھی کتابیں لکھی ہیں۔ خود بھارت میں مورخین نے کتابیں اور بہت سے ریسرچ پیپرز اسی موضوع پر لکھی ہیں۔ را کے مختلف سربراہان اور اعلیٰ افسروں کی کتب سے بھی شہادتیں مل جاتی ہیں، کاو بوائز آف را سمیت کئی کتب میں خاصا کچھ موجود ہے۔ سب سےبڑھ کر موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود اعلانیہ یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ وہ تب بطور نوجوان رضاکار مکتی باہنی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ ان تمام واقعات میں درج ذیل بھارتی انوالمنٹ کنفرم ہوگئی ۔


الف: مکتی باہنی دراصل انڈین پراکسی تھی


یہ یاد رکھیں کہ مکتی باہنی کوئی خود رو عوامی تحریک نہیں تھی۔ مکتی باہنی بھارتی ریاست کے بغیر جنگ جاری رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ اس کی تربیت بھارتی سرزمین پر ہوئی ۔ اسلحہ، لاجسٹکس اور انٹیلی جنس بھارت نے دی۔ بھارتی فوجی و خفیہ اداروں کا کردار اب ٹھوس شواہد کی روشنی میں سو فی صد سچ ،ایک طرح سے دستاویزی ہو چکا ۔

        (ب) بھارتی فوجی مداخلت ۔فیصلہ کن فیکٹر

دسمبر 1971 میں بھارتی بری، بحری اور فضائی افواج براہِ راست میدان میں اتریں۔ یہ روایتی جنگ تھی، کوئی “انفرادی مداخلت” نہیں تھی۔ بنگلہ دیش کا قیام بھارتی عسکری فتح کا براہ راست نتیجہ تھا۔ یہ دو ٹوک حقیقت ہے کہ اگر بھارتی فوج مداخلت نہ کرتی تو مشرقی پاکستان شائد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا مگر سولہ دسمبر جیسا فوجی سرنڈر ممکن نہ تھا۔

                     (ج) مداخلت کے حوالے سے کمزور بھارتی جواز 

بھارت نے مہاجرین کے مسئلے اور انسانی بحران کو جواز بنایا مگر بین الاقوامی قانون میں کسی خودمختار ریاست پر حملے کا یہ واضح جواز نہیں بنتا۔ ویسے بھی بھارتی فیلڈ مارشل مانک شاہ کی کتاب سے اندازہ ہوچکا کہ بنگالی مہاجرین کے بھارت جانے سے پہلے ہی اندرگاندھی مشرقی پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنا چکی تھی، چند ماہ کی تاخیر مانک شاہ کی درخواست پر فوجی تیاریوں اور اسلحہ کی دستیابی میں ہوئی ۔


استحصال کا جھوٹا پروپیگنڈا اور بہاریوں کا قتل عام


سولہ دسمبر کے سانحے کے اسباب میں ایک بڑا فیکٹر ڈس انفارمیشن کا طوفان اور جھوٹی سازشی تھیوریز کی بھرمار کا بھی رہا۔ مشرقی پاکستان میں بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مغربی پاکستان بنگالیوں کا استحصال کر رہا ہے۔ پھر ملٹری آپریشن کے حوالے سے بھی شرمناک پروپیگنڈا کیا گیا، ایسے مبالغہ آمیز الزامات لگائے گئے جو بعد میں کبھی ثابت نہیں ہوسکے۔ مکتی باہنی نے جو بہاریوں کا قتل عام کیا ، اس کے بارے میں انڈین میڈیا خاموش رہا اور فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہونے والی اموات کو کئی سو گنا بڑھا کر پیش کیا گیا۔ بعد میں جب وزیراعظم بننے کے بعد شیخ مجیب نے انکوائری کمیشن بنایا تو وہاں کچھ بھی ثبوت جمع نہ ہوسکے۔


استحصال والا نعرہ اگر درست ہوتا تو بنگلہ دیش بن جانے کے بعد نیا ملک فوری ترقی کر جاتا مگر خاصے عرصے تک یعنی لگ بھگ تیس پینتیس سال تک بنگلہ دیش شدید معاشی مشکلات سے دوچار رہا۔ وہ تو بعد میں گرامین بنک کے پروفیسر یونس کی اصلاحات اور مائیکرو کریڈٹ فنانس نے کام کرنے والی ڈومیسٹک انڈسٹریز کو فروغ دیا اور پھر یورپی یونین کے جی ایس پی پلس سٹیٹس اور ٹیکسٹائل کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت نے بنگلہ دیش کی معشت بہتر کی مگراس میں بنگلہ دیش کے وسائل کا کوئی خاص ہاتھ نہیں تھا۔ یوں وقت نے استحصال کا وہ پروپیگنڈہ بھی جھوٹ ثابت کر دیا۔

سولہ دسمبر 2014۔ اے پی ایس حملے میں بھارت سپانسر


یہ محض الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو پشاور میں سکول پر حملے میں بھارت براہ راست نہ سہی، مگر پریکٹیکلی پیچھے وہی تھا۔ اس بار ایک خاموش سپانسر کے طور پر۔ اس کے بھی خاصے شواہد موجود ہیں۔ بعد کے آپریشن میں گرفتار ہونے والے کئی دہشت گردوں نے یہ تفصیل اگل دی ۔ خود بھارتی منصوبہ سازوں کے ویڈیو کلپس موجود ہیں کہ پاکستان کے اندر پراکسی وار لڑی جائے اور وہاں موجود مزاحمتی مسلح گروپوں کو اسلحہ اور پیسہ فراہم کیا جائے۔ اس مقدمہ کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں :

(الف) براہِ راست ثبوت یا اسٹریٹیجک پیٹرن؟

پاکستان میں سرگرم ٹی ٹی پی ، بی ایل اے، دیگر علیحدگی پسند و دہشت گرد نیٹ ورکس خود بھارتی مداخلت کا بولتا ثبوت ہیں۔ ان پر بھارتی سپانسرشپ کے سنگین الزامات موجود ہیں۔ خود بھارتی انٹیلی جنس افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری نے اس بھارتی نیٹ ورک کو دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔ ماڈرن سپائی ہسٹری میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ کوئی حاضر سروس انٹیلی جنس افسر کسی دوسرے ملک میں آپریشن کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔

(ب) گوریلا جنگ اور فارن فنڈنگ۔ زمینی حقیقت


دنیا کی کوئی بھی گوریلا دہشت گرد علیحدگی پسند تحریک بغیر بیرونی فنڈنگ زندہ نہیں رہ سکتی ۔ یہ ماننا سادہ لوحی ہے کہ ٹی ٹی پی جیسے نیٹ ورک مقامی چندوں سے چلتے رہے۔اسلحہ ،محفوظ ٹھکانے، سفارتی چشم پوشی اور حامد کرزئی، اشرف غنی حکومتوں کے دور میں افغان سرزمین کو را ہینڈلرز کی جانب سے استعمال کیا جانا ایک حقیقت بن چکی۔

 (ج) بھارت کی اسٹریٹیجک منطق

اجیت دول جیسے سابق بھارتی انٹیلی جنس افسر اور کئی برسوں سے وزیراعظم نریندر مودی کے نہایت طاقتور نیشنل سکیورٹی افیسر اجیت دول اپنی اس ڈاکٹرائن پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے پاکستان میں مداخلت کر کے پراکسی وار لڑی اور انہیں اندر سے مصروف کر دیا۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق پاکستان کو اندر سے غیر مستحکم رکھنا، سیکیورٹی اسٹیٹ بنائے رکھنا اور یوں عالمی سطح پر “ناکام ریاست” کے طور پر پیش کرنا ہی بھارت کی سٹریٹجک پالیسی ہے۔ یہی وہ پالیسی ہے جسے بھارت خود ڈاکٹرائن آف بلیڈنگ پاکستان ودھ تھاوزنڈ کٹس کے طور پر دیکھتا رہا ہے۔

             دونوں 16 دسمبر کا مشترک سبق 

یہ اپنی جگہ حقیقت کہ سولہ دسمبر اکہتر کو بھی بھارت انوالو تھا، سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو بھی بھارت کا پس پردہ اہم کردار تھا۔ فرق یہ ہے کہ 1971 میں بھارت کھل کر سامنے آیا،البتہ 2014 میں پراکسی وار کے ذریعے یہ ہوا۔ بھارت اس سب کا ذمہ دار ہے مگر کیا صرف بھارت کا قصور ہے ؟ جواب نفی میں ہے۔ ہمارا بھی بڑا قصورہے۔ ہم نے بڑی غلطیاں کیں، بلنڈرز ہوئے اور ہمارے دشمن نے ان سے فائدہ اٹھایا۔


1971 میں ہم نے سیاسی بحران کو دشمن کے ہاتھ میں ہتھیار دیا۔ 2014 میں ہم نے “اسٹریٹیجک اثاثوں” کی فیکٹری خود لگائی۔ گڈ طالبان، بیڈ طالبان میں ہم بٹے رہے، یکسو ہو کر کوئی ٹھوس پالیسی نہ اپنا سکے۔ ٹی ٹی پی کو اتنا طاقتور ہونے دیا کہ اس نے دشمن بھارت کی فنانسنگ پر وہ کاری وار کر ڈالا۔ دشمن تب کامیاب ہوتا ہےجب ریاست اندر سے کمزور ہو۔ بھارت نے1971 میں دراڑ پر وار کیا، 2014 میں شگاف کو زخم بنایامگر دراڑ ہم نے خود ڈالی تھی۔


بھارت وہی کر رہا ہے جو ہر دشمن ریاست کرتی ہے، ہرکمینہ دشمن یہی کرتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم نے اسے یہ گنجائش کیوں دی؟اسی پر غورکرنا ہی دونوں سولہ دسمبر کے ایام کا اصل سبق اور نچوڑ ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان دشمن سے نہیں، غلط فیصلوں سے ہوا۔

         آج ہماری قیادت کہاں کھڑی ہے؟

اہم ترین سوال یہ ہے کہ ہم نے دونوں سولہ دسمبر کے سانحات سے کیا سبق سیکھا؟ اس پر بات کرتے ہیں۔ سب سے اہم اور خوش آئندبات یہ ہے کہ ہماری سول ملٹری قیادت اب دہشت گردوں کے حوالے سے یکسو نظر آرہی ہے۔ اب کسی قسم کا ابہام باقی نہیں رہا۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے کوئی چاہے کسی اور حوالے سے اختلاف کر لے، مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ انہوں نے اس کنفیوژن کا بالکل خاتمہ کر دیا ہے جو پچھلے دو عشروں سے عسکریت پسندی اور جنگجو تنظیموں کے حوالے سے پاکستان میں چل رہا تھا۔ اس نکتے کا جائزہ لیتے ہیں :

دہشت گردی پر غیر مبہم پالیسی


فیلڈمارشل جنرل عاصم منیر کے دور میں دہشت گرد اور ریاست کے درمیان کوئی گرے ایریا نہیں۔ “اچھے اور برے طالبان” کی تھیوری عملاً دفن ہو چکی ۔ٹی ٹی پی کے ساتھ نہ مذاکرات ،نہ سہولت ،نہ سیاسی جواز۔ یہی وہ نکتہ ہے جو 2014 سے پہلے غائب تھا۔

     افغانستان پر سٹریٹجک پالیسی  شفٹ 

افغانستان سے کی جانے والی دراندازی اور دہشت گردوں کی سپانسرشپ کے حوالے سے پہلی بار سخت، حقیقت پسندانہ اور دو ٹوک موقف اپنایا گیا ہے۔ افغان طالبان کے حوالے سے رومانویت ختم، “برادرانہ تعلقات” کا فریب ترک
کر کے عملی اقدامات اٹھائے گئے۔ جیسے افغان مہاجرین کی واپسی ، غیر قانونی آمد پر پابندیاں، بارڈر مینجمنٹ میں سختی۔
پیغام واضح ہے کہ پاکستانی ریاست اب افغان جنگ کی قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں۔ یہ 40 سال بعد آنے والا اسٹرٹیجک شفٹ ہے۔

            ٹی ٹی پی کے خلاف ریاستی رٹ کی بحالی

تحریک طالبان پاکستان کے خلاف جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، باجوڑ ، تیراہ، اورکزئی، خیبر، کرم وغیرہ میں منظم انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق کارروائیاں اور آپریشن چل رہا ہے۔ سہولت کاروں کے خلاف بھی یہی ہو رہا ہے۔ مالی نیٹ ورکس ، لاجسٹک سپورٹ ، نظریاتی ہمدردوں کا قلع قمع کرنے کی کوشش ہو رہی ۔ یہ محض بندوق نہیں، پورا نیٹ ورک توڑنے کی کوشش ہے۔


بلوچستان۔ پراکسی وار کو براہِ راست چیلنج

بی ایل اے ، بی ایل ایف اور دیگر گروپوں کے خلاف بھی مسلسل انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں چل رہی ہیں۔ سب سے اہم کہ بھارتی پراکسی نیٹ ورک کا ادراک کر کے اس کا صفایا کیا جا رہا۔ ریاستی بیانیہ اہم ہے جس میں بلوچ عوام اور دہشت گرد گروپوں میں واضح فرق کیا گیا۔ یہ اہم ہے کیونکہ ماضی میں یہ بات اچھے طریقے سے سمجھائی نہ جا سکی۔ بلوچستان میں ویسے ابھی وہاں کے عوام کے لئے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ اس پر مسلسل فوکس رکھا جائے۔ عام آدمی کی زندگی آسان ہو تووہ دہشت گردوں کے چنگل میں نہیں پھنستا۔

        سولہ دسمبر کے تناظر میں ہمارا آج ماضی سے مختلف 

انیس سو اکہتر میں ریاست کمزور تھی اور دشمن جارح ، 2014 میں ریاست کنفیوژن کا شکار جبکہ دشمن بے رحم مگر 2024،25 میں ریاست واضح موقف اور یکسو پالیسی کے ساتھ کام کر رہی ہے، اسی وجہ سے دشمن دباؤ میں ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو تاریخ کا دھارا موڑ سکتا ہے،اگر تسلسل برقرار رہا۔
سولہ دسمبر ہمیں بتاتا ہے کہ غلطیوں کی قیمت نسلیں چکاتی ہیں،
اور درست فیصلوں کا ثمر بھی وقت مانگتا ہے۔ اگر موجودہ ریاستی یکسو اور غیر مبہم مضبوط پالیسی برقرار رہی تو ان شااللہ آنے والی نسلوں کے لیے 16 دسمبر صرف تاریخ رہ جائے، زخم نہیں۔

متعلقہ مضامین

نوے ژوند ادبی، ثقافتی اور فلاحی تنظیم اسلام آباد کے زیرِ اہتمام اے پی ایس شہداء کو سلام ادب، شمع اور عزمِ امن کے ساتھ 11ویں برسی پر پروقار مشاعرہ و شمع افروزی

December 16, 2025

سقوطِ ڈھاکہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ریاست کی اصل طاقت بندوق نہیں، بلکہ آئین، پارلیمان، عوامی مینڈیٹ اور مساوی شہری حقوق ہوتے ہیں۔ جب سیاست کو دبایا جاتا ہے تو تاریخ خود کو دہرانے لگتی ہے۔ یہ سانحہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ اگر ہم نے ماضی سے سیکھنے کے بجائے اسے فراموش کر دیا تو زخم بھرنے کے بجائے مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔

December 16, 2025

بونڈائی بیچ فائرنگ کیس میں تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ ملزم ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا تھا جبکہ پولیس حملہ آوروں کے بیرونی روابط اور محرکات کی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے

December 16, 2025

پاکستانی طلبہ نے عالمی مقابلوں میں انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، قانون اور سائنس کے شعبوں میں شاندار کامیابیاں حاصل کر کے پاکستان اور تعلیمی اداروں کا نام روشن کیا

December 16, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Seraphinite AcceleratorOptimized by Seraphinite Accelerator
Turns on site high speed to be attractive for people and search engines.