پاکستانی ادارے ریاست کی جانب سے مرتّب کردہ پالیسی کے تحت افغان مہاجرین کو واپس اپنے ملک بھیجے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کئی افغان شہری اپنے وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ اس اقدام کو جہاں عالمی سطح پر سراہا جارہا وہیں بعض ممالک کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں میں جرمنی نے اُن 211 افغان شہریوں کی ملک بدری پر تشویش کا اظہار کیا ہے جنہیں جرمنی میں دوبار رہائش پذیر ہونے کا حق حاصل تھا، لیکن پاکستان نے اپنی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے انہیں افغانستان بھیج دیا۔
دراصل جرمنی حکام کو ان 211 افغان شہریوں کے کیس نمٹانے میں چار برس کا طویل عرصہ لگا نتیجتاً یہ لوگ پاکستان میں غیر یقینی کیفیت میں رہے۔
ایک جانب جرمنی حکام ریاستِ پاکستان پر تحفظات کا اظہار کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب جرمنی بذاتِ خود افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس قسم کا طرزِ عمل دراصل جرمنی حکام پر ایک سوالیہ نشان چھوڑتا ہے۔
لہذا جرمنی کو اپنے طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے تحفظات کا اظہار کرنے کے بجائے عالمی حالات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔
اور اسی طرح معمولی سی وجوہات اور مسائل کی بنا پر یورپی ممالک سے افغان شہریوں کو واپس بھیجا جارہا ہے جبکہ دوسری پاکستان کئی طرح کے مسائل نبرد آزما ہے جن میں سرفہرست ملکی سالمیت، سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے اور دہشت گردی جیسے سنگین کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان نے روس اور نیٹو کی افغان سرزمین پر موجودگی کے باعث لاکھوں افغان باشندوں کو پناہ دی مگرمغربی و عالمی برادری کی جانب سے کیے گئے وعدون کی تکمیل نہ ہونے کے باعث افغآن مہاجرین شدید اضطرار و مایوسی کا شکار ہوئے۔
دیکھیں: وزارت داخلہ کا افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق نوٹیفیکیشن جاری