کابل میں یرغمالیوں کے امور پر امریکی صدر کے خصوصی ایلچی ایڈم بوهلر کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد نے طالبان قیادت سے ملاقات کی۔ وفد نے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور نائب وزیراعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر اخوند سے علیحدہ ملاقاتیں کیں۔
اس ملاقات میں سابق امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد بھی شامل تھے۔ مذاکرات کا مرکز دونوں ممالک کے زیرِ حراست قیدیوں کا معاملہ اور وسیع تر دوطرفہ تعلقات و اقتصادی تعاون رہا۔
طالبان وزارتِ خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ متقی کے ساتھ ملاقات میں قیدیوں کا مسئلہ تفصیل سے زیرِ بحث آیا اور طالبان نے اسے تعلقات کو معمول پر لانے کا موقع قرار دیا۔ متقی نے کہا کہ “یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں پیچیدہ مسائل حل کرنے کے لیے ایک موزوں موقع ہے۔”

ایڈم بوهلر نے اپنی گفتگو میں زور دیا کہ ماضی میں کابل میں ہونے والی ملاقاتوں پر آگے بڑھتے ہوئے عملی نتائج حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن ریاستوں کی آزادی کا احترام کرتا ہے اور افغانوں پر اپنی رائے مسلط نہیں کرنا چاہتا۔
اقتصادی تعاون پر بات چیت
وفد نے طالبان کے نائب وزیراعظم ملا برادر سے ملاقات میں اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری کے امکانات پر بھی گفتگو کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ سلامتی اور انسانی بحران بڑے مسائل ہیں، تاہم مستقبل میں اقتصادی روابط کے امکانات موجود ہیں۔
وفد کے پروفائل
زلمے خلیل زاد کا شمار تجربہ کار افغان نژاد امریکی سفارتکاروں میں ہوتا ہے۔ وہ افغانستان، عراق اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں اور ٹرمپ دور میں افغانستان کے لیے خصوصی نمائندہ بھی رہے۔ ان کی قیادت میں 2020 کا دوحہ معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں امریکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار ہوئی۔ تاہم ناقدین کے مطابق اس پالیسی نے افغان حکومت کے تیز زوال کی راہ بھی ہموار کی۔
ایڈم بوهلر سابق چیف ایگزیکٹو، یو ایس انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشنرہ چکے ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ میں اہم اقتصادی عہدے پر فائز تھے۔ ان کی موجودگی اس امکان کی عکاسی کرتی ہے کہ امریکہ مشروط اقتصادی امداد یا سرمایہ کاری کے راستے تلاش کر سکتا ہے۔
بیک ڈور سفارت کاری کی تاریخ
یہ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکی وفد کا کابل کا دوسرا اعلان شدہ دورہ ہے۔ پانچ ماہ قبل ہونے والی پہلی ملاقات میں بھی زلمے خلیل زاد شامل تھے، جس کے بعد طالبان نے امریکی انجینئر جارج گلازمان کو رہا کیا تھا۔