سابق وزیرِاعظم و بانی تحریکِ انصاف عمران خان نے خیبر پختونخوا میں شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اپنی جماعت کے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان آپریشنز اور ڈرون حملوں کے خلاف مزاحمت کریں۔
یہ پیغامات جمعرات کے روز عمران خان کے آفیشک ایکس اکاؤنٹ پر شائع کیے گئے ہیں جو مبینہ طور پر اڈیالہ جیل میں ان کی اپنی بہنوں سے 10 ستمبر کو ہونے والی گفتگو پر مبنی ہیں۔ اگرچہ عمران خان کو جیل میں سوشل میڈیا تک رسائی حاصل نہیں تاہم ابھی یہ سامنے نہیں آسکا کہ نہیں ہو سکا کہ ان کا اکاؤنٹ کون چلا رہا ہے۔
عمران خان کا آپریشنز پر اعتراض
اپنی بہنوں سے گفتگو کے حوالے سے جاری کیے گئے پیغامات میں عمران خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں جاری فوجی آپریشن کو فوری طور پر روکا جائے۔ ماضی میں اے این پی کو بھی اسی طرح کے اقدامات کے ذریعے غیر مقبول بنایا گیا۔ اپنی ہی عوام کے خلاف بیرونی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے آپریشنز شروع کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کو مزید سنگین بناتا ہے۔
“The military operation in Khyber Pakhtunkhwa must be stopped immediately. ANP was made unpopular through similar actions in the past. Launching operations against our own people merely to please foreign powers does not improve the situation; it only makes it worse. In these…
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) September 11, 2025
عمران خان کا انتباہ: مہنگائی اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے شکار عوام پر فوجی آپریشن مزید مشکلات میں ڈال رہے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم نے خبردار کیا کہ جو عوام پہلے ہی مہنگائی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے پریشان ہیں ان پر فوجی کارروائیوں سے مزید دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ مذاکرات کے علاوہ امن کا کوئی پائیدار حل کبھی ممکن نہیں ہوا۔
ماضی میں پی ٹی آئی کی شدت پسندی پر مشتمل پالیسی
پی ٹی آئی کے پہلے دورِ حکومت میں جب وہ خیبر پختونخوا میں برسرِ اقتدار تھی، 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکو پر ہونے والے حملے کے اثرات سے گزر رہا تھا۔ اس سانحے میں تحریکِ طالبان پاکستان ٹی ٹی پی کے چھ حملہ آوروں نے 149 افراد کو شہید کیا، جن میں 132 بچے شامل تھے۔
اس افسوسناک واقعے کے بعد ملک میں بڑے فوجی آپریشنز ضربِ عضب اور ردالفساد شروع کیے گئے، جنہوں نے شدت پسند گروہوں کو کافی حد تک کمزور کیا۔
تاہم اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ٹی ٹی پی نے دوبارہ منظم ہونا شروع کیا اور افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل کر لیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی مذاکرات پر زور دیتی رہی لیکن 2022 میں اطلاعات سامنے آئیں کہ ٹی ٹی پی ٹی ٹی پی کے دو اہم کمانڈر مسلم خان اور محمود خان کو رہا کر کے افغان طالبان کے حوالے کر دیا گیا جس کے ساتھ ہی سرحد پار حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔
بعد ازاں پاکستان نے مذاکرات کا آغاز کیا، جن میں معروف عالمِ دین مفتی تقی عثمانی سمیت دیگر شخصیات ثالث بنیں لیکن یہ بات چیت ناکام ہو گئی۔
شدت پسندی میں اضافہ اور نئے آپریشنز
پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے تنازع اور سیکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق اگست 2025 گزشتہ ایک دہائی کا سب سے زیادہ خونریز مہینہ رہا، جس میں 143 شدت پسند حملے ہوئے جن میں اکثریت ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک گروہوں کی تھی۔ ان حملوں میں 94 افراد جان سے گئے جن میں 73 سیکیورٹی اہلکار اور 62 عام شہری شامل تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ تشدد میں اضافے اور مذاکرات کی ناکامی کے بعد حکومت کے پاس خیبر پختونخوا میں نئے فوجی آپریشنز شروع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، جو ملک یں امن و سلامتی پر محیط سیکیورٹی پالیسی کا حصہ ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اب تک 8,000 سے زائد شدت پسند افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ 8 اگست کو بلوچستان کے ضلع ژوب میں دراندازی کی کوشش کے دوران 57 شدت پسند مارے گئے، جبکہ 2 ستمبر کو بنوں میں فرنٹیئر کور لائنز پر ہونے والے حملے میں شامل پانچ میں سے تین حملہ آور افغان شہری تھے۔