اسلامی امارت افغانستان کے ترجمان ملا ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ الزام تراشی اور طاقت کا استعمال نہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ افغانستان کے۔ انہوں نے کہا کہ کابل اسلام آباد کے ساتھ برادرانہ تعلقات چاہتا ہے اور مسائل کو بات چیت اور کمیٹیوں کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے۔
مجاہد نے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے لیے تجزیہ کار امتیاز گل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ افغانستان سرحد کے آر پار عدم تحفظ نہیں پھیلانا چاہتا اور تعلقات میں استحکام چاہتا ہے۔
پاکستان نے جواب میں کہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں، خصوصاً تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، کی موجودگی اس کی سلامتی کو براہِ راست نقصان پہنچا رہی ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق یہ گروہ افغان سرزمین سے کارروائیاں کرتے ہیں اور عام شہریوں و سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ دوحہ معاہدے کی اس شق پر عمل ضروری ہے جس میں افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دی گئی تھی۔ اسلام آباد کے مؤقف کے مطابق 2021 میں امریکی و نیٹو افواج کے چھوڑے گئے ہتھیار اب انہی دہشت گردوں کے ہاتھوں میں ہیں جو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
پاکستانی وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے حالیہ دنوں افغانستان کو “معاندانہ ملک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ کابل ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے ایک سرخ لکیر ہے۔
پاکستان نے کہا ہے کہ وہ بھی افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک میں امن کا خواہاں ہے بشرطیکہ ٹی ٹی کو لگام ڈالی جائے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے۔
دیکھیں: افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے: عاصم افتخار