صائمہ کی شادی کے دن قریب تھے۔ دل میں خواہش تھی کہ وہ اپنی شادی کے دن سب کی نظروں کا مرکز بنے۔ جب اس نے اپنی قریبی دوست سے مشورہ لیا تو جواب ملا: “ڈائٹنگ شروع کر دو، روٹی اور چاول چھوڑ دو، صرف ابلی ہوئی سبزیاں اور دال کھاؤ، اور روزانہ ایک گھنٹہ ورزش کرو۔”
صائمہ نے یہ سب کچھ کر دکھایا۔ لیکن چند ہی دنوں میں اس کی توانائی ختم ہونے لگی۔ کھانے کی کمی اور سخت ورزش نے اس کے جسم کو توڑ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شادی سے ایک ہفتہ پہلے ہی وہ اسپتال جا پہنچی۔ شادی والے دن مہنگے میک اپ اور بھاری جوڑے کے باوجود اس کا کمزور چہرہ نقاہت چھپا نہ سکا۔
یہ کہانی صرف صائمہ کی نہیں ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ وزن کم کرنے کے چکر میں ڈائٹنگ اور کیلوریز گننے میں لگ جاتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ کھانے کا تعلق صرف جسم سے نہیں بلکہ ذہن اور روح سے بھی ہے۔ یہی ہے ہولسٹک ایٹنگ، کھانے کو ایک مثبت اور متوازن انداز میں اپنانے کا طریقہ۔
کھانے کے حوالے سے مسلمان کا اصول
کھانے کے حوالے سے ایک مسلمان کا اصول یہ ہونا چاہیے کہ وہ کھانا اس لیے کھائے تاکہ بندگی کے لیے درکار توانائی اور یکسوئی حاصل ہو سکے۔ اس سے حاصل ہونے والی توانائی کو وہ زندگی کے فرائض اور بامقصد امور کی انجام دہی میں صرف کر سکے۔
“لہذا اللہ نے جو حلال پاکیزہ چیزیں تمہیں رزق کے طور پر دی ہیں، انہیں کھاؤ، اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اگر واقعی تم صرف اسی کی بندگی کرتے ہو۔”
(سورہ النحل: 114)
ہولسٹک ایٹنگ کے اصول
قدرتی غذاؤں کو ترجیح دیں
تازہ پھل، سبزیاں، مکمل اناج، دالیں اور صاف گوشت کھائیں۔ یہ غذائیں جسم کو وہی توانائی دیتی ہیں جو قدرت نے رکھی ہے۔
پروسیسڈ فوڈ کم کریں
آج کل ایک کلک پر کھانا گھر پہنچ جاتا ہے، لیکن یہ آسانی ہمیشہ فائدہ مند نہیں۔ روزانہ برگر، پیزا، فرنچ فرائز یا کولڈ ڈرنکس صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان کو کبھی کبھار کھائیں، روز کا معمول نہ بنائیں۔
توازن اور تنوع اپنائیں
پلیٹ میں رنگ بکھیرنے کی کوشش کریں۔ سبزیاں، پھل، اناج اور پروٹین سب شامل ہوں تاکہ جسم کو ہر طرح کے حیاتین اور معدنیات مل سکیں۔
ذہنی سکون کے ساتھ کھائیں
کھانے کو جلدی جلدی ختم نہ کریں۔ آہستہ چبائیں، ذائقے کو محسوس کریں اور اپنے جسم کے سگنلز پر دھیان دیں۔
جسم اور روح کو غذا دیں
کھانا صرف پیٹ بھرنے کا نام نہیں ہے، یہ خوشی، سکون اور تعلقات کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
میٹھا اور چکنائی میں توازن
میٹھے اور تلی ہوئی چیزوں کو مکمل طور پر چھوڑنا بھی ضروری نہیں۔ اصل بات اعتدال کی ہے۔ سنت کے مطابق پیٹ کا ایک تہائی حصہ کھانے، ایک تہائی پانی اور ایک تہائی سانس کے لیے چھوڑ دیں۔
چھنے ہوئے آٹے کے بجائے چکی کا آٹا
چکی کا آٹا ریشے اور غذائیت سے بھرپور ہے۔ یہ ہاضمے کو بہتر بناتا اور شوگر لیول کو متوازن رکھتا ہے۔
شوربے میں ریشہ موجود ہوتا ہے جو قبض سے بچاتا ہے اور ہاضمہ بہتر کرتا ہے۔ سنت میں بھی شوربے والا سالن پسند کیا گیا ہے۔
پانی کا استعمال
پانی وہ نعمت ہے جو جسم کے ہر خلیے کو زندہ رکھتا ہے۔ بیٹھ کر، تین سانسوں میں اور بسم اللہ کے ساتھ پینا سنت ہے اور صحت کے لیے بہترین۔
متوازن غذا اور جلد کی خوبصورتی
تازہ پھل اور سبزیاں مہنگی اسکن کیئر پروڈکٹس سے بہتر ہیں۔ اچھی خوراک جلد کو صاف اور تروتازہ رکھتی ہے۔
بجٹ بھی ہاتھ میں رہتا ہے
گھر کا سادہ کھانا ہمیشہ فاسٹ فوڈ سے سستا اور صحت مند ہے۔ ساتھ ہی خاندان کے ساتھ کھانے کی سنت بھی پوری ہوتی ہے۔
کیسے آغاز کریں؟
• پلیٹ چیک کریں: ہر کھانے میں سبزیاں، پروٹین اور اناج شامل کریں۔
• پانی کا شیڈول بنائیں: دن میں 6-8 گلاس پانی پینے کی عادت ڈالیں۔
• آہستہ تبدیلی لائیں: فاسٹ فوڈ روزانہ کے بجائے ہفتے میں ایک بار کریں۔
• سنّت کے آداب اپنائیں: دائیں ہاتھ سے کھائیں، بسم اللہ پڑھیں، اور میانہ روی اختیار کریں۔
• میل پلان بنائیں: ایک ہفتے کا سادہ منصوبہ بنا لیں تاکہ اچانک باہر کے کھانے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
• اپنے جسم کی سنیں: جب بھوک لگے تب کھائیں اور جب سیر ہو جائیں تو رک جائیں۔
• خاندان کے ساتھ کھائیں: یہ سنت بھی ہے اور تعلقات مضبوط بھی کرتا ہے۔
ہولسٹک ایٹنگ کوئی وقتی ڈائٹ نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ کھانے کو اپنے جسم، ذہن اور روح کی پرورش کے طور پر اپنایا جائے۔ جب ہم کھانے کے ساتھ مثبت تعلق بنا لیتے ہیں، تو نہ صرف صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ زندگی میں سکون اور توازن بھی بڑھ جاتا ہے۔
کھانے پینے کے بارے میں اسلام کا پیغام نہایت متوازن اور ہمہ جہت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف حلال ہی نہیں بلکہ طیب (پاکیزہ اور مفید) رزق اختیار کرنے کی ہدایت دی ہے، تاکہ کھانا صرف جسم کو نہیں بلکہ دل و دماغ اور روح کو بھی طاقت دے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ کھانے کے ذریعے انسان اپنی بندگی، صحت اور اخلاقی بلندی کو سہارا دے، نہ کہ اپنی خواہشات یا جسمانی لذت کو۔
“اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں رزق کے طور پر عطا کی ہیں، ان میں سے (جو چاہو) کھاؤ، اور اللہ کا شکر ادا کرو، اگر واقعی تم صرف اس کی بندگی کرتے ہو۔” (سورہ البقرة: 172)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے واضح کیا کہ وہ چیز جس کے بارے میں علم ہو کہ وہ نقصان دہ ہے، خواہ حلال ہو، انسان کو نہیں کھانی چاہیے۔ یہ تعلیم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اسلام میں صرف “جائز” کا تصور کافی نہیں، بلکہ “فائدہ مند اور صحت بخش” کا پہلو بھی ضروری ہے۔ اسی لیے کھانے میں درست مقدار، درست طریقہ اور درست نیت کے ساتھ توازن رکھنا لازمی ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ کھانا محض شکم سیری نہیں بلکہ ایک امانت ہے۔ اگر یہ امانت صحیح طریقے سے ادا کی جائے تو یہ انسان کی صحت، روحانیت اور شخصیت کو نکھارتی ہے۔ بصورت دیگر، یہی کھانا انسان کے لیے جسمانی بیماریوں اور روحانی کمزوری کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
دیکھیں: نیو یارک میں اقوام متحدہ کا 80واں اجلاس؛ شہباز شریف کی شرکت، عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں