افغانستان میں طالبان کی اعلیٰ قیادت کے درمیان اختلافات مزید واضح ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق امیر المؤمنین ہیبت اللہ اخوندزادہ اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے درمیان حالیہ ملاقات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔
اطلاعات کے مطابق سراج حقانی نے ملاقات کے دوران افغانستان کے سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل پر تفصیل سے بات کی۔ انہوں نے خاص طور پر ان پالیسیوں پر تشویش ظاہر کی جن کی وجہ سے عالمی سطح پر افغانستان تنہا ہو رہا ہے۔ حقانی نے زور دیا کہ انٹرنیٹ پر پابندی ختم کی جائے اور لڑکیوں کی تعلیم کے دروازے کھولے جائیں تاکہ معاشرہ ترقی کی طرف بڑھ سکے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کوئی لچک نہیں دکھائی۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ انٹرنیٹ کھولنے کا فیصلہ صرف شوریٰ کرے گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنی سخت پالیسی برقرار رکھی اور دیگر سخت گیر اقدامات پر بھی ڈٹے رہے۔ اس رویے نے واضح کر دیا کہ طالبان کے اندر نرم اور سخت گیر دھڑوں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ملاقات کے بعد سراج حقانی بغیر کھانا کھائے واپس چلے گئے، جسے مبصرین ایک علامتی احتجاج قرار دے رہے ہیں۔ ان کے اس اقدام نے یہ تاثر مزید گہرا کر دیا ہے کہ طالبان کے اندرونی معاملات میں شدید اختلافات پنپ رہے ہیں۔
یہ صورتحال افغانستان کے مستقبل کے لیے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ عالمی برادری پہلے ہی طالبان حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر رہی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر یہ اختلافات بڑھتے رہے تو طالبان کے اندر تقسیم مزید گہری ہو سکتی ہے۔
دیکھیں: امارت اسلامیہ کا روس، چین، پاکستان اور ایران کے افغانستان سے متعلق بیان کا خیر مقدم