امارتِ اسلامی افغانستان کی جانب سے پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سہولت کاری کے ناقابل تردید شواہد سامنے آگئے ہیں۔ معتبر ذرائع کے مطابق افغان انٹیلی جنس کے ایک مبینہ خط نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان کے بعض حکام نے ٹی ٹی پی کے ایک اہم رکن ابوبکر عرف عمر آفریدی اور اس کے 25 ساتھیوں کو پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ میں داخلے کے لیے ہدایات جاری کیں۔
ترک خبر رساں ادارے “ترکیہ اردو” نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ خط امارتِ اسلامی کے انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کیا گیا، جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے اور وہاں مخصوص کارروائیاں انجام دینے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ایچ ٹی این کو ذرائع کے ذریعے موصول ہونے والے اسی خط نے اس دعوے کی مزید تصدیق کر دی ہے۔
امارت اسلامی افغانستان کی جانب سے پاکستان میں کالعدم ٹی – ٹی – پی کی سہولت کاری کے ناقابل تردید شواہد سامنے آگئے۔
— HTN Urdu (@htnurdu) November 4, 2025
ترکیہ اردو (@TurkiyeUrdu_) نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان انٹیلی جنس حکام کی جانب سے ایک خط جاری کیا گیا جس میں کالعدم جماعت کے اہم رکن ابوبکر عرف عمر آفریدی کو اس کے 25… pic.twitter.com/x8BxYbJdVu
ذرائع کے مطابق یہ خط افغانستان کے شمالی صوبے کنڑ سے جاری ہوا، جس میں طالبان کمانڈرز کو ہدایت کی گئی کہ ابوبکر آفریدی اور اس کے ساتھیوں کو تمام ضروری سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ بغیر کسی مزاحمت کے پاکستان کے قبائلی علاقوں تک پہنچ سکیں۔
پاکستانی سیکیورٹی ماہرین نے اس پیشرفت کو “انتہائی تشویشناک” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام افغانستان کی سرزمین کو دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے وعدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ ہفتوں میں کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے، خاص طور پر سرحد پار دہشتگردی، مہاجرین کی واپسی، اور باہمی اعتماد کے فقدان کے حوالے سے۔ اس کے بعد دوحہ اور استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے باعث اس وقت جنگ بندی چل رہی ہے تاہم ایسے واقعات اس جنگ بندی اور آئندہ مذاکرات کیلئے انتہائی پریشان کن ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر امارتِ اسلامی کے اندر ایسے عناصر واقعی کالعدم ٹی ٹی پی کی مدد کر رہے ہیں تو یہ نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ خود افغانستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے خطے میں دہشتگردی کی نئی لہر جنم لے سکتی ہے۔
پاکستانی ماہرین نے ایک مرتبہ پھر افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دہشتگرد گروہ کے استعمال سے باز رکھے اور دوطرفہ سلامتی معاہدوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
امارتِ اسلامی کی جانب سے اس خط کے حوالے سے تاحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
دیکھیں: افغان ترجمان ذبیح اللہ مجاهد کے دعوے نے ترکی مذاکرات کے نتائج پر سوالات اٹھادیے