طالبان حکام کی جانب سے افغانستان واپس جانے والے افراد کی سخت جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق افغان شہری جو اپنے ہی ملک واپس جانا چاہتے ہیں، انہیں طالبان حکام کی جانب سے دستاویزی تصدیق، بائیومیٹرک ویریفکیشن، اور تفصیلی پوچھ گچھ کے سخت مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
طالبان سرحدی عملے کا کہنا ہے کہ افغانستان میں واپسی صرف اُن افراد کو دی جاتی ہے جو مکمل قانونی کاغذات، شناختی ثبوت اور سیکیورٹی کلیئرنس رکھتے ہوں۔
بغیر اسکریننگ یا بغیر قانونی شناخت کے کسی بھی شخص کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
طالبان حکام نے واضح کیا ہے کہ سیکیورٹی خدشات، داخلی نظم و نسق اور شناختی مسائل کے باعث بیرونِ ملک سے آنے والے افغان شہریوں کا سخت ڈیٹا ریکارڈ، بائیومیٹرکس اور کاغذاتی جانچ ناگزیر ہے۔
یہ صورتحال اس بیانیے کے بالکل برعکس ہے جو افغان سوشل میڈیا نیٹ ورکس اور بعض سرگرم گروہ دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کے بارے میں پھیلاتے ہیں، جہاں وہ افغان مہاجرین کی بغیر تصدیق اندھا دھند قبولیت کا مطالبہ کرتے ہیں اور میزبان ریاستوں کو ’’اسلامی برادری‘‘ یا ’’اتحادی فرض‘‘ کا طعنہ دیتے ہیں۔
اسی تضاد نے سوشل میڈیا صارفین کو سوال اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر افغان حکومت خود اپنے شہریوں کو بغیر ویریفکیشن ملک میں داخل نہیں ہونے دیتی، تو پھر دوسرے ممالک پر دباؤ کیوں ڈالا جاتا ہے کہ وہ بغیر کسی دستاویزات کے افغان شہریوں کو قبول کریں؟
دیکھیں: افغان طالبان کے خلاف مزاحمتی گروہوں کی کارروائیاں تیز؛ فاریاب اور قندوز میں متعدد طالبان ہلاک