پاکستان نے برطانیہ کے ساتھ ایک تبادلے کی تجویز پیش کی ہے جس میں پیشگی شرط رکھی گئی ہے کہ پاکستان برطانیہ کے رہائشی “روچڈیل گرومنگ گینگ” کے مجرم افراد کو واپس لے گا، بشرطیکہ لندن پاکستان کے سیاسی مخالفین کو ہمارے حوالے کرے۔ اس خبر کی تصدیق ڈراپ سائٹ نیوز نے بھی کی ہے۔
یہ تجویز جمعرات کو ایک خفیہ ملاقات کے دوران سامنے آئی، جس میں پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی اور برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ نے شرکت کی۔ سرکاری بیان میں ملاقات کو “سیکورٹی تعاون” اور “جعلی خبروں کے خلاف اقدامات” کے تناظر میں پیش کیا گیا، لیکن ذرائع کے مطابق اصل بات ایک کواڈ پرو کوو معاہدہ یعنی بدلے کی بنیاد پر ہوئی: اسلام آباد برطانیہ کی شہریت سے محروم پاکستانی نژاد جنسی مجرموں کے لیے سفر کے دستاویزات جاری کرے گا، اگر لندن سابق وفاقی وزیر شہزاد اکبر اور یوٹیوبر عادل راجہ کو واپس کرے۔
پاکستانی حکومت نے گزشتہ برسوں میں ایسے ناقدین کو “جعلی خبریں” پھیلانے کے الزامات میں نشانہ بنایا ہے، اور اسی نوعیت کے الزامات دیگر نیوز چینلز پر بھی لگائے گئے ہیں جو پروپیگنڈے میں ملوث ہیں۔
روچڈیل گینگ اور قانونی پیچیدگیاں
برطانیہ ہوم آفس سالوں سے روچڈیل گینگ کے ارکان کو ملک سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ افراد 2012 میں بچیوں کے ساتھ جنسی استحصال اور ٹریفکنگ کے جرم میں سزا یافتہ تھے اور 2018 میں ان کی برطانوی شہریت منسوخ کر دی گئی۔ لیکن چونکہ انہوں نے پاکستانی شہریت بھی چھوڑ دی تھی، اس لیے قانونی خلا کی وجہ سے ان کی ملک بدری ممکن نہ ہو سکی۔
پاکستان کی تجویز کے مطابق ان افراد کو واپس بھیجا جائے گا، جو برطانیہ کے لیے ایک سیاسی کامیابی ہے، لیکن اس کے بدلے پاکستان دو ناقدین، شہزاد اکبر اور عادل راجہ، کی حوالگی چاہتا ہے۔
سیاسی مخالفین پر الزامات
اکبر اور راجہ پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ اکبر سابقہ احتساب کمیشن کے سربراہ رہ چکے ہیں جبکہ راجہ مفرور فوجی ہیں اور سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج کے اقدامات کو بلا وجہ نشانہ بناتے رہے ہیں۔
نقوی نے ملاقات کے دوران ان دونوں افراد کے لیے عدالتی کاغذات برطانوی حکام کو پیش کیے اور الزام لگایا کہ وہ برطانیہ سے “دشمنِ ریاست پروپیگنڈا” چلا رہے ہیں۔ نقوی نے کہا:
“دونوں افراد پاکستان میں مطلوب ہیں۔ انہیں فوری طور پر پاکستان حوالے کیا جانا چاہیے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جعلی خبریں ہر ملک کے لیے مسئلہ ہیں اور کوئی بھی ریاست اپنے اداروں کے خلاف بدنامی نہیں برداشت کر سکتی۔
برطانیہ میں قانونی رکاوٹیں
برطانیہ میں عدلیہ ایسے افراد کی حوالگی سیاسی مقاصد کے لیے ہونے پر یا اگر انہیں خطرہ ہو، تو مسترد کر سکتی ہے۔ لہذا، پاکستان کی درخواست قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرے گی۔
روچڈیل گینگ کے مجرم اور ان کے اثرات
تبادلے کی اصل توجہ روچڈیل گینگ کے مرکزی رئیڈرز پر ہے، خصوصاً وہ افراد جو دوہری شہریت رکھتے ہیں جیسے قاری عبدالروف اور عادل خان۔ ان کی سزا کے بعد برطانیہ نے انہیں شہریت سے محروم کیا، لیکن وہ پہلے ہی پاکستانی شہریت سے دستبردار ہو چکے تھے، جس سے انہیں نکالنا مشکل تھا۔
برطانیہ میں دائیں بازو کے کارکنان جیسے ٹومی رابنسن نے اس کیس کو اپنی تحریک میں استعمال کیا، اور الزامات عائد کیے کہ ریاست غیر ملکی مجرموں کی حفاظت کر رہی ہے جبکہ سفید فام متاثرین کی حفاظت نہیں کر رہی۔
ٹیکنالوجی کے کاروباری ایلون مسک نے بھی اس موضوع پر توجہ دی اور برطانوی حکومت پر دباؤ بڑھایا۔
پاکستان کی پیشکش اور اس کے سیاسی اثرات
نقوی نے “پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر برطانوی شہریوں” کی واپسی کی پیشکش کی، جو مبصرین کے مطابق مجرموں کے لیے سفارتی کنایہ تھا، بشرطیکہ برطانیہ اکبر اور راجہ کی حوالگی کرے۔ اس سے برطانیہ کے لیے ایک مشکل صورتحال پیدا ہوئی، جہاں ملکی سیاسی فائدہ اور قانونی ذمہ داری کے درمیان توازن رکھنا پڑتا ہے۔
شہزاد اکبر اور عادل راجہ کے بیانات
راجہ نے کہا کہ انہیں برسوں سے ہدف بنایا جا رہا ہے، پاسپورٹ منسوخ، اثاثے ضبط، اور غیر منصفانہ مقدمات کا سامنا ہے، جبکہ ان کی والدہ کو سفر سے روکا گیا۔ اکبر نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اسے اس لیے نشانہ بنا رہی ہے کیونکہ وہ فوجی سربراہ اور آئینی ترامیم پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔