ناروے کے سفیر کی سپریم کورٹ میں ایک نجی پاکستانی شہری سے متعلق اپیل کی سماعت میں اچانک آمد نے سفارتی آداب، سفارتی غیر جانب داری اور پاکستان کی عدالتی خودمختاری کے حوالے سے سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ عالمی سفارتی روایت میں یہ طرزِ عمل غیر معمولی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ عام طور پر کسی ملک کا سفیر اس نوعیت کی عدالتی کارروائیوں میں شریک نہیں ہوتا جن کا تعلق نہ اس کے شہریوں سے ہو اور نہ کسی دوطرفہ معاہدے سے۔
ماہرین کے مطابق ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات کی آرٹیکل 41 واضح طور پر سفارتی مشنز کو پابند کرتی ہے کہ وہ میزبان ملک کے قوانین کا احترام کریں اور داخلی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں۔ اس پس منظر میں سفیر کی موجودگی کو سفارتی حدود سے تجاوز اور ایک ایسے کیس میں غیر ضروری دلچسپی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس کا ناروے سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں تھا۔ نہ کوئی ناروے کا شہری فریق تھا، نہ قونصلر رسائی یا انسانی ہمدردی کی کوئی لازمی وجہ موجود تھی۔
The current Norwegian Ambassador to Pakistan H.E. Mr. Per Albert Ilsaas, arrives at Supreme Court of Pakistan to observe proceedings in the appeals filed by Advocate Imaan Hazir Mazari & Advocate Hadi Ali Chatta against their trial under controversial PECA Act. pic.twitter.com/nsMbJ5BI2M
— Matiullah Jan (@Matiullahjan919) December 11, 2025
مزید تشویش اس وقت بڑھ گئی جب یہ پس منظر سامنے آیا کہ جس کا سفیر سے قریبی رابطہ سمجھا جاتا ہے ماضی میں مہرنگ بلوچ کی حمایت کرتا رہا ہے، جو امریکہ کی جانب سے نامزد کردہ دہشت گرد تنظیم بی ایل اے سے منسلک عناصر کی حمایت کے الزامات کا سامنا کر چکی ہیں۔ اسی تنظیم نے پاکستان میں متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اسی طرح پین ناروے نے ایمان مزاری کو بھی پلیٹ فارم مہیا کیا، جو مختلف مواقع پر بی ایل اے، بی وائی سی اور علیحدگی پسند بیانیوں کی حمایت کرتی رہی ہیں۔ اس ریکارڈ نے اس تاثر کو مزید تقویت دی کہ ناروے کا سفارتی جھکاؤ ایسے گروہوں کے بیانیے سے مطابقت رکھتا ہے جو پاکستانی ریاست کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی سفارتی اہلکار عدالت میں موجود ہو تو یہ صرف مشاہدہ نہیں رہتا بلکہ “سیاسی اشارہ” سمجھا جاتا ہے خصوصاً اُس وقت جب سفیر اس سے پہلے پاکستان میں کسی اور حساس مقدمے کی سماعت میں کبھی موجود نہ رہے ہوں۔ اس طرح کی منتخب، مخصوص اور ہائی پروفائل عدالتی حاضری کسی نہ کسی شکل میں عدالتی عمل پر دباؤ یا اس کے تاثر کو متاثر کر سکتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر عدالتیں اپنی کارروائیوں کو کسی بھی بیرونی اثر سے پاک رکھنے پر سختی سے کاربند رہتی ہیں، اور پاکستان بھی اسی اصول کا پابند ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق اگر سفیر نے یہ سماعت کسی فریق کی درخواست پر اٹینڈ کی تھی تو یہ معاملہ مشاہدے کی حد سے نکل کر ’ایڈووکیسی’ یا اثراندازی کے زمرے میں آتا ہے، جسے سفارتی اصولوں میں واضح طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ مبصرین یاد دلاتے ہیں کہ ناروے خود کبھی بھی پاکستانی سفارتی اہلکاروں کو اوسلو کی عدالتوں میں کسی زیرِ سماعت سیاسی نوعیت کے مقدمے میں بیٹھنے کی اجازت نہ دے گا۔ اسی طرح پاکستان میں بھی سفارتی مشنز کے لیے یہ طے شدہ روایت ہے کہ وہ عدالتی کارروائیوں کے بجائے ریاستی اداروں کے ساتھ سرکاری میٹنگز، انسانی حقوق مکالموں، یا پالیسی امور پر بات چیت جیسے رسمی چینلز اختیار کرتے ہیں۔
اس واقعے کا ایک اہم تناظر یہ بھی ہے کہ پاکستان اس وقت متعدد قانونی اصلاحات اور سیاسی حساسیت کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ایسے ماحول میں کسی غیر ملکی سفیر کا ایک سیاسی نوعیت کے مقدمے کی سماعت میں جسمانی طور پر موجود ہونا فطری طور پر سوالات پیدا کرتا ہے اور عدالتی غیر جانب داری کے بارے میں عوامی اعتماد کو متاثر کر سکتا ہے۔
سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ محض ایک سفارتی بے احتیاطی نہیں بلکہ ایک خطرناک مثال قائم کر سکتا ہے۔ اگر آج ایک سفیر کسی سماعت میں شریک ہوتا ہے تو کل کو کسی سیاسی رہنما کے مقدمے میں دوسرے ممالک کے سفرا کی حاضری کا مطالبہ بھی سامنے آ سکتا ہے جو ریاستی خودمختاری کے لیے خطرناک مثال ثابت ہوگا۔
پاکستانی حکام کا مؤقف ہے کہ ملک کی عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے اور کسی بھی قسم کا بیرونی دباؤ، خواہ ارادی ہو یا غیر ارادی، قابلِ قبول نہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ سفارتی مشنز سے ویانا کنونشن کے احترام اور میزبان ملک کے داخلی معاملات سے دور رہنے کی توقع رکھی ہے۔